انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


چوتھے اس وقت جب کہ علم، تقویٰ، عبادت وریاضت اور روحانیت ہر ایک کی ایک قیمت مقرر ہو چکی تھی اور ان سب جنسوں کا بازار سلطنت میں بیوپار ہو رہا تھا، یہ ہستیاں وہ تھیں جنہوں نے اپنے خداداد جوہروں کو دنیوی قیمتوں سے بالاتر ثابت کیا۔ نہ اپنا کردار بدلا اور نہ اپنے کردار کو حکومت وقت کے غلط مقاصد کا آلہ کار بنایا۔ نہ حکومتوں کے خلاف کھڑی ہونے والی جماعتوں کے معاون بنے اور نہ حکومتوں کے ناجائز منصوبوں کے مددگار ہوئے ۔ حالانکہ حکومتوں نے ان ہر داؤں کو آزمایا۔ مصیبتوں میں بھی مبتلا کیا اور اقتدارِ دنیا کی طمع کے ساتھ بھی آزمائش کی ۔ مگر ان کا کردار ہمیشہ منفرد رہا۔ اور اموی و عباسی کسرویت و قیصریت کے زیرسایہ پروان چڑھی ہوئی دنیا کے ماحول کے اندر وہ علیحدہ صحیح اخلاق اسلامی کا نمونہ پیش کرتے رہے ۔ یہ ان کا خاموش عمل ہی وہ مستقل جہاد حیات تھا جو وہ بتقاضائے خلافت الٰہیہ مستقل طو رپر انجام دیتے رہے ۔

پانچویں ۔ اگرچہ ان بزرگواروں کی عمریں مختلف ہوئیں ۔ ایک طرف حضرت امام جعفر صادق(ع) ہیں جو تقریباً پینسٹھ برس اس دارِ دنیا میں رہے دوسری طرف حضرت امام محمد تقی(ع) ہیں جو ۲۵ برس سے زیادہ اس دارِ فانی میں زندہ نہیں رہے ۔ اور پھر برسراقتدار امامت آنے کے موقع پر عمروں کا اختلاف یعنی جب سابق امام(ع) کی وفات ہوئی اور بعد کے امام(ع) کی امامت تسلیم ہوئی اس وقت ایک طرف حضرت امام محمد باقر(ع) اور امام جعفر صادق(ع) ہیں جن کی عمر اپنے والد بزرگوار کی وفات کے وقت ۳۴ یا ۳۵ برس تھی اور دوسری طرف حضرت امام محمد تقی(ع) اور امام علی نقی(ع) ہیں جن کی عمریں زیادہ سے زیادہ آٹھ نو برس تھیں مگر عالم اسلامی کا بیان متفق ہے کہ ہر ایک بزرگ اپنے دور میں عبادت، زہد، ورع، تقویٰ، ریاضت نفس، فیض و کرم تمام اخلاق میں مثالی زندگی کے مالک رہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے افعال نفسانی جذبات اور طبیعت کے تقاضوں کی بنا پر نہیں ہیں جن میں عمر کا فرق اثر انداز ہوتا ہے بلکہ وہ سب اسی للہیت اور احساس فرائض کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جو انسانی کردار کی معراج ہے ۔

اب فرداً فرداً ہر امام(ع) کے حالات میں ان کے زمانہ کی کیفیات کے انفرادی خصوصیات کے ساتھ ان مشترکہ اقدار کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کا مجمل حیثیت سے ابھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام

آپ کا دور کربلا کے تاریخی کارنامہ اور شھادت امام حسینع کے بعد شروع ھوا ھے ۔ یہ زمانہ وہ تھا جب مظالم کربلا کے ردعمل میں مسلمانوں کی آنکھیں کھل رھی تھیں ۔ کچھ مخلص افراد سچے جذبھٴ عقیدت کے ساتھ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھو گئے تھے ۔ اور کچھ نے سیاسی طور پر اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے حصول اقتدار کا اسے ذریعہ بنایا تھا۔ اس وقت عام انسانی جذبات کے لحاظ سے اندازہ کیجئے کہ ایک وہ ھستی جس نے کربلا کے بھتر لاشے زمین گرم پر دیکھے ھوں اور یزید کے ھاتھوں خود وہ مظالم اٹھائے ھوں ۔ جو کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کے پورے المیہ میں مضمر ھیں اسے ھر اس کوشش کے ساتھ جو سلطنت بنی امیہ کے خلاف ھو رھی ھو کتنی قلبی وابستگی ھونا چاھئے اور اس وابستگی کے ساتھ بڑی مشکل بات ھے کہ وہ عواقب پر نظر کر سکے ۔ ایسے موقعوں پر عام جذبات کا تقاضا تو یہ ھے کہ چاھے حب علیع کے جذبہ میں کچھ کوششیں نہ ھوں صرف بعض معاویہ میں ھوں مگر ایسی کوششوں کے ساتھ بھی آدمی منسلک ھو جاتا ھے ۔ فقط اس لئے کہ ھمارے مشترک دشمن کے خلاف ھیں خصوصاً جب کہ اس میں کامیابی کے آثار بھی نظر آ رھے ھوں جیسے عبداللہ بن زھیر جنھوں نے حجاز میں اتنا مکمل تسلط حاصل کر لیا تھا کہ جمھوری نظریھٴ خلافت کے بھت سے علماء قھر و غلبہ کی بنا پر ان کی باضابطہ خلافت کے قائل ھیں ۔ جس کی تصدیق حفاظ سیوطی کی تاریخ الخلفاء سے ھو سکتی ھے ۔ یا اھل مدینہ کی منظم کوشش جس نے عمال یزید کو وقتی طور سے نکل جانے پر مجبور کر دیا تھا مگر ایسی حالت میں جب کہ جناب محمد بن حنفیہ کی وابستگی ان تحریکوں سے کسی حد تک نمایاں ھو سکی، امام زین العابدین کا کردار ان تمام مواقع پر اس طرح علیحدگی کا رھا کہ آپ کو ان تحریکوں سے کبھی وابستہ نھیں کیا جا سکا۔

یہ علیحدگی ھی بڑے ضبطِ نفس کا کارنامہ ھے چہ جائیکہ آپ نے اس موقع پر مصیبت زدوں کے پناہ دینے کی خدمت اپنے ذمہ رکھی ۔ چنانچہ مروان ایسے دشمن اھل بیتع کو جب جان بچا کر بھاگنے کی ضرورت پیش ھوئی تو اپنے اھل و عیال اور سامان و اموال کی حفاظت کے لئے اگر کسی جائے پناہ پر اس کی نظر پڑی تو وہ صرف حضرت امام زین العابدینع تھے ۔ اس کردار کا یہ نتیجہ تھا کہ جب پھر فوج یزید نے یورش کی مدینہ میں قتل عام کیا جو واقعھٴ حرہ کے نام سے مشھور ھے تو آپ کے لئے ممکن ھوا کہ آپ مظلومین مدینہ میں سے بھی چار سو بے بس خواتین کو اپنی پناہ میں لے سکیں اور محاصرہ کے زمانہ میں آپ ان کے کفیل رھیں ۔

آپ کا مروان کو پناہ دینا بتا رھا تھا کہ آپ انھی علی بن ابی طالبع کی روایات کے حامل ھیں جنھوں نے اپنے قاتل کو بھی جام شیر پلانے کی سفارش کی تھی اور حضرت امام حسینع کے جنھوں نے دشمنوں کی فوج کو پانی پلوایا تھا۔ وھی کردارآج امام زین العابدینع کے قالب میں نگاھوں کے سامنے ھے ۔

اسی کی مثال پھر اس وقت سامنے آئی جب یزید کی موت کے بعد انقلاب کے خوف سے حصین بن نمیر جو مکہ کا محاصرہ کئے ھوئے تھا۔ مضطربانہ اور سراسیمہ اپنے لشکر کو لے کر فرار پر مجبور ھوا اور مدینہ کی راہ سے شام کی طرف روانہ ھوا۔ بنی امیہ سے نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ کوئی نہ ان لوگوں کو کھانے کا سامان دیتا تھا نہ اونٹوں اور گھوڑوں کے لئے چارا مھیا ھو سکتا تھا۔ اتفاق سے امام زین العابدینع اپنی زراعت سے غلہ اور چارا لے کر واپس جا رھے تھے ۔ حصین نے بڑھ کر ملتجیانہ انداز میں کھا کہ یہ غلہ اور چارا میرے ھاتہ فروخت کر دیجئے ۔ آپ نے فرمایا۔ ضرورت مند کی خاطر یہ بلاقیمت حاضر ھے ۔ اس کرم کو دیکہ کر اس نے تعارف حاصل کیا کہ آپ ھیں کون؟ جب معلوم ھوا تو اس نے حیرت کے ساتھ کھا آپ نے پھچانا بھی ھے کہ میں کون ھوں؟ حضرت نے فرمایا: ”میں خوب پھچانتا ھوں مگر بھوکوں اور پیاسوں کی مدد کرنا ھم اھل بیت کا شعار ھے۔“ حصین اس واقعہ سے اتنا متاثر ھوا کہ گھوڑے سے نیچے اتر کر کھنے لگا کہ یزید تو ختم ھو چکا ھے آپ ھاتہ بڑھائیے میں اپنے پورے لشکر سمیت آپ کی بیعت کرتا ھوں اور آپ کی خلافت کو تسلیم کرانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھوں گا اس پر آپ باندازِ تحقیر تبسم فرمایا اور بغیر کچھ جواب دیئے آگے روانہ ھو گئے ۔

اس دور انقلاب کے ھنگامی تقاضوں سے اس طرح دامن بچانے کے باوجود اس سرچشمہ انقلاب یعنی واقعہ کربلا کی یاد کو برابر آپ نےتازہ رکھا۔ یہ زمانہ ایسا نہ تھا کہ عمومی مجالس کی بنا ھو سکتی اور عوام میں تقریروں کے ذریعہ سے اس کی اشاعت کی جاتی ۔ اس لئے آپ نے اپنے شخصی تاثرات غم اور مسلسل اشکباری پر اکتفا کی، جو بالکل فطری حیثیت رکھتی تھی ۔ یہ مقاومت مجھول سے زیادہ غیرمحسوس ذریعہ تھا ان انقلابی اقدار کے تحفظ کا جو واقعہ کربلا میں مضمر تھے مگر آئینی طور پر کسی حکومت کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ اس گریہ پر پابندی عائد کر سکتی ۔ یوں مظالم کربلا کے دور میں کسی آنکہ سے نکلنے پر نوک نیزہ سے اذیت دی جاتی ھو تو وہ اور بات ھے مگر دور امن میں کسی انتھائی ظالم و جابر حکومت کے لئے بھی اس کا موقع نہ تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جس کاباپ تین دن کا بھوکا پیاسا پس گردن سے ذبح کیا گیا ھو ۔ اور جس کے گھر سے ایک دوپھر میں اٹھارہ جنازے نکل گئے ھوں اور جس کی ماں بھنیں اسیر بنا کر شھر بہ شھر اور دیار بہ دیار پھرائی گئی ھوں ان تاثرات کے اظھار سے روک سکے جو صرف رنج و ملال کی شکل میں آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے جاری ھوں ۔ پھر بلاشبہ اس غیرمعمولی مسلسل گریہ میں جو پچیس برس تک جاری رھا وہ عظیم تاثیر تھی جسے چاھے تاریخ کی سطحی نگاہ اسباب انقلاب میں شمار نہ کرے مگر واقعیت کی دنیا میں اس کی اھمیت سے انکار نھیں کیا جا سکتا۔

اس مسلسل گریہ کے واقعات کو تاریخوں میں پڑھنے کے بعد طبیعت انسانی کے فطری تقاضوں کی بنا پر ھر شخص ایسا تصور کر سکتا ھے کہ غمزدہ اور ھمہ تن گریہ و آہ ھستی سے اس کے بعد یہ توقع کرنا غلط ھے کہ وہ علوم و معارف کی کوئی خدمت انجام دے سکے مگر نھیں ”معراج انسانیت“ تو اسی تضاد میں مضمر ھے کہ یہ غرق حسرت و اندوہ ذات بھی اپنے اس فریضہ سے جو بحیثیت نائب حق و رھنمائے خلق اس کے ذمہ ھے ۔ غافل نھیں ھوتی ۔ بے شک یہ دور ایسا پرآشوب تھا کہ آپ کے گردوپیش طالبان ھدایت کا مجمع نھیں ھو سکتا تھا۔ آپ کسی مجمع کو مخاطب بنا کر کوئی تقریر نھیں فرما سکتے تھے ۔ نہ اپنے قلم کے ذریعہ لوگوں سے سلسلہ مخابرت جاری فرما سکتے تھے اس لئے اس دور کے تقاضوں کے ماتحت آپ نے منفرد طریقہ ”دعا و مناجات“ کا اختیار فرمایا۔ یہ بھی مثل ”گریھ“ کے ایک لازم بظاھر غیرمتعدی عمل تھا۔ جو کسی قانون کی زد میں نھیں آ سکتا تھا مگر ان دعاؤں کو بھی جو ”صحیفہ سجادیھ“ کی شکل میں محفوظ ھیں جب ھم دیکھتے ھیں تو بلا کسی شائبہ مبالغہ و مجاز کے یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ھے کہ وھی روح جو حضرت علی بن ابی طالبع کے نھج البلاغ والے خطبوں میں متحرک ھے وھی صحیفہ کاملہ کی ان دعاؤں میں بھی موجود ھے ۔ صرف یہ کہ وھاں جو حکیمانہ گھراؤاور خطیبانہ بھاؤ ھے اس کی قائم مقامی یھاں اس سوزوگداز نے کی ھے جس کا دعاؤ مناجات میں محل ھے اور اس طرح اس کے سننے والوںمیں دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی شدت سے متاثر ھوتا ھے جو غالباً دوسروں کی اصلاح کے لئے کچھ کم اھمیت نھیں رکھتا اور اسی ذیل میں اخلاق و فرائضکے تعلیمات بھی مضمر ھیں ۔ جو مدرسہ اھل بیتع کے مقاصد خصوصی کی حیثیت رکھتے ھیں ۔

اس دور میں اس ذریعہ تبلیغ و تدریس کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ ممکن نہ تھا اورامام زین العابدینع نے اس ذریعہ کو اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ یہ حضرات کسی سخت ماحول میں بھی اپنے فرائض اور اھم مقاصد کو ھرگز نظرانداز نھیں کرتے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next