انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


عبداللہ بن الحسن(ع)جو عبداللہ المثنی کے نام سے مشھور تھے ۔ امام زین العابدین کے بھانجے یعنی فاطمہ بنت الحسین (ع)کے صاحبزادے تھے اور محمد ان کے بیٹے جو اپنے ورع و تقویٰ کی بنا پر نفس زکیہ کے نام سے مشھور تھے جناب فاطمہ بنت الحسین(ع)کے پوتے تھے ۔

منصور نے تمام سادات حسنی کو قید کردیا اور خصوصیت سے عبداللہ المحض کو پیرانہ سالی کے عالم میں اتنے سخت شدائد و مظالم کے ساتھ قید تنھائی میں محبوس کیا کہ الحفیظ والامان۔

ظاھر ھے کہ حضرت امام جعفر صادق (ع)قلبی طور پر ان حضرات سے غیرمتعلق نہ تھے چنانچہ یہ واقع ھے کہ جس دن اولاد حسن(ع)کو زنجیروں سے باندہ کر گردن میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں پھنا کر بے کجا وہ اونٹوں پر سوار کرکے مدینہ سے نکالا گیا۔ اور یہ قافلہ اس حال میں مدینہ کی گلیوں سے گزرا تو امام جعفر صادق(ع)اس منظر کو دیکہ کر تاب ضبط نہ لا سکے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے اور اس کے بعد ۲۰ دن تک شدت سے بیمار رھے ۔ عبداللہ کے دونوں بیٹے محمد اور ابراھیم کچھ دن پھاڑوں کی گھاٹیوںمیں چھپے رھے پھر ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق ایک جماعت کو اپنے ھمراہ لے کر مقابلہ پر آماد ھوئے اس موقع پر یہ واقعہ یاد رکھنے کا ھے کہ رائے عامہ محمد کے ساتھ اس حد تک محسوس ھو رھی تھی کہ امام ابو حنیفہ اور مالک نے نفس زکیہ کی حمایت و نصرت کے لئے فتویٰ دیا۔ مگر حضرت امام جعفر صادق(ع)اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر باوجود تمام جذباتی تقاضوں کے اس مھم سے علیٰحدہ رھے ۔ اور آپ نے اپنے دامن کو اس کشمکش سے بالکل ھی بچائے رکھا۔ آپ جانتے تھے کہ یہ مھم وقتی حالات کی بنا پر اضطراری فعل کے طور پر شروع کی گئی ھے جس کے پس پشت کوئی بلند مقصد نھیں ھے نہ اس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ھے لیکن میں نے اگر اس کا کسی طرح بھی ساتھ دیا تو اس تعمیری خدمت کا بھی جو میں معارف آل رسول کی اشاعت کے طور پر انجام دے رھا ھوں دروازہ مسدود ھو جائے گا۔

یہ بے پناہ ضبط و صبر وھی ھے جو ان کے آباؤ اجداد میں نظر آتا رھا تھا اور وہ عام انسانوں کے بس کی بات نھیں ھے ۔

امام موسیٰ کاظم

آپ کے زمانہ میں سیاست کا شکنجہ پھر سخت ھو گیااب نہ تعلیم و تدریس کی وہ آزادی رھی نہ تبلیغ و اشاعت کے مواقع باقی رہ گئے ۔ حکومت وقت برابر آپ سے برسر پرخاش رھی یھاں تک کہ آخر عمر کے کئی سال تمام وکمال قید خانہ میں گزر گئے مگر آپ کی بلند سیرت کی روشنی اتنی تیز تھی کہ قید خانہ کی اونچی اور سنگین دیواریں اس کے لئے ایک نازک و باریک پردہ سے زیادہ نہ تھیں جس کے اندر سے اس کی شعائیں چھن کر باھر نکلتی رھیں ۔ یھاں تک کہ چودہ صدیاں پار کرکے ھم تک بھی پھنچ سکی ھیں ۔ چنانچہ اسی سیرت کی بلندی کا نتیجہ یہ تھا کہ حکومت وقت کے مقررکردہ قیدخانوں کے افسر آپ کی نیکوکاری کے سامنے ھتھیار ڈال دیتے تھے اورآپ کے ساتھ سختی کرنے سے معذور رھتے تھے جس کے نتیجہ میں بار بار نگرانوں کے بدلنے کی ضرورت ھوتی تھی ۔ چنانچہ پھلے آپکو بصرہ میں عیسیٰ بن جعفر بن منصور کی نگرانی میں رکھا گیا۔ اس ھدایت کے ساتھ کہ ان کو قید تنھائی میں رکھو اور کچھدن کے بعد حکم دیا کہ انھیں قتل کر دو ۔ وہ خلیفہ وقت کا چچازاد بھائی تھا مگر اس کے دل پر امام موسیٰ کاظمع کے حسن کردار کا اثر پڑ گیا تھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے ان کے حالات کی خوب جانچ کی ھے وہ تو ھمیشہ دن کو روزہ رکھتے ھیں اور شب و روز عبادت میں مصروف رھتے ھیں تنھائی کے عالم میں بھی ھم میں سے کسی کے لئے کبھی بددعا نھیں کرتے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ھیں کہ تونے مجھے اپنی عبادت کے لئے یہ تنھائی کی جگہ عطا فرمائی ۔ ایسے خداترس اور عبادت گزار کی جان لینا میرے بس کی بات نھیں ھے ۔

جب اس نے انکار کیا تو آپ کو بصرہ سے بلوا کر بغداد میں فضل بن ربیع کے سپرد کیا گیا۔ مگر فضل پر بھی آپ کے کردار کے مشاھدہ کا خاص اثر پڑا۔ آخر فضل بن ربیع کو بھی اس صورت سے برطرف کیا گیا۔ یحییٰ برمکی کو براہ راست نگران بنا دیا گیا اور اس سے بھی پھر غیرمطمئن ھو کر سندی بن شاھک کو مقرر کیا گیا۔ یہ ایسا قسی القلب اور سفاک تھا کہ اس نے زھر دغا دے کر امامع کی زندگی کا خاتمہ کیا۔

زندگی میں قید خانہ میں محبوس رکھے گئے اور پھر قبر کے اندر مدفون ھو گئے مگر ان کے اوصاف و کمالات، زھد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت ھی نھیں بلکہ ان کے زبان و قلم سے نکلے ھوئے بھت سے ارشادات و تعلیمات اور شریعت نبوی کے احکام اب تک کتابوں کے صفحات پر موجود ھیں جو بتا رھے ھیں کہ وہ اسی سلسلہ کی ایک فرد تھے جس میں سے ھر ایک اپنے دور کے حالات کے مطابق کاروان بشر کو منزل کمال انسانیت تک پھنچانے کے لئے رھنمائی کا فرض انجام دیتا رھا۔ اور اپنے کردار کی رفعت سے ”معراج انسانیت“ کی نشان دھی کرتا رھا۔

امام رضا علیہ السلام

آپ کو جس خاص صورت حال سے دوچار ھونا پڑا وہ آپ کے زمانہ کے عباسی خلیفہ مامون کا قبول ولی عھدی کے لئے آپ کو مجبور کرنا تھا بالکل اسی طرح جیسے آپ کے مورث اعلیٰ حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ(ع) کے سامنے چوتھے نمبر پر حکومت پیش کی گئی ظاھر ھے کہ یہ وہ امامت نہ تھی جو منجانب اللہ آپ کو حاصل تھی اسے دنیا نے تسلیم نھیں کیا تھا بلکہ وھی اپنے نقطہ نظر والی جمھوری خلافت تھی جس کی پیشکش آپ کے سامنے کی گئی تھی اور اسی لئے آپ نے اس سے شدید انکار فرمایا مگر جب لوگوں کا اصرار قیام حجت کے قریب پھنچ گیا تو چونکہ ایک داعی حق کو جس عنوان سے سھی ایک موقع اگر خلق خدا کی اصلاح کا مل جائے چاھے وہ کسی لباس میں ھو، اسے نظرانداز نھیں کرنا چاھئے ۔ اب آپ نے ان کے اصرار کو قبول فرما لیا۔ اسی طرح اب امام رضا کے سامنے مامون اقتدار کی پیشکش کر رھا تھا۔ مورخین متفق ھیں کہ آپ نے انکار فرمایا۔ کثرت سے گفتگوئیں ھوئیں اور مامون نے بار بار اصرار کیا اور آپ ھر مرتبہ انکار فرماتے تھے ۔ اور آپ کا ارشاد تھا کہ میں اللہ کی بندگی ھی کو بس اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ھوں اور اقتدار دنیا سے تو کنارہ کشی ھی کرکے بارگاہ الٰھی میں بلندی کی امید رکھتا ھوں اور جب وہ اصرار کرتا تھا تو آپ کھتے تھے: اَللّٰھُمَّ لَا عَھَدَ اِلَّا عَھْدِکَ وَ لا وِلاٴیہ اِِلَّا مِنْ قَبْلِکَ فَوَفْقنِیْ الِاقامَةِ دِیْنکَ واحیّآءِ سُنَّتِہ نبِیّکَ نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نعْمَ النَّصِیْر۔

”پروردگار! عھدہ تو وھی عھدہ جو تیری طرف سے ھے اور حکومت وھی حکومت ھے جو تیری جانب سے ھے ھاں مجھے توفیق عطا فرما کہ تیرے دین کے شعائر کو قائم کروں اور تیرے رسول کی سنت کو زندہ کروں ۔ تو بھترین مالک اور بھترین مددگار ھے۔“

اس میں ایک طرف صحیح اسلامی نظریہ حکومت کی تبلیغ ھو رھی تھی جس سے آپ کے انکار کا پس منظر واضح طور پر نمایاں ھو رھا تھا اور دوسری طرف اقامت دین اور احیائے سنت کے لئے اپنے جذبہ بے قرار کا مظاھرہ تھا جو بعد از اصرار بسیار ولی عھدی کے قبول کرنے کے پس منظر کی ترجمانی کر رھا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next