انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


سوا ان لوگوں کے جو ان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے اس وقت کا ھر شخص یقیناً مامون کا ھم خیال ھو گا۔ مگر حضرت امام محمد تقی(ع) نے اپے کردار سے ثابت کر دیا کہ جو ھستیاں عا م جذبات کی سطح سے بالاتر ھیں اور یہ بھی اسی قدرتی سانچے میں ڈھلے ھوئے ھیں جن کے افراد ھمیشہ معراج انسانیت کی نشاندھی کرتے آئے ھیں آپ نے شادی کے بعد محل شاھی میں قیام سے انکار فرمایا اور بغداد میں جب تک قیام رھا آپ ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام پذیر ھوئے او رپھر ایک سال کے بعد ھی مامون سے حجاز واپس لے جانے کی اجازت لے لی ۔ اور مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت کا کاشانہ گھرکی ملکہ کے دنیوی شاھزادی ھونے کے باوجود بیت الشرف امامت ھی رھا۔ قصر دنیا نہ بن سکا۔ ڈیوڑھی کا وھی انداز رھا جو اس کے پھلے تھا۔ نہ پھرے دار اورنہ کوئی خاص روک ٹوک۔ نہ تزک نہ احتشام۔ نہ اوقات ملاقات کی حدبندی ۔ نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق۔ زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رھتی تھی جھاں مسلمان حضرت کے وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ راویان حدیث احادیت دریافت کرتے تھے ۔ طلاب علمی مسائل پوچھتے تھے اور علمی مشکلات کو حل کرتے تھے ۔ چنانچہ شاھی سیاست کی شکست کا نتیجہ یہ تھا کہ آخر آپ کا بھی زھر سے اسی طرح خاتمہ کیا گیا جس طرح آپ کے بزرگوں کا اس سے پھلے کیا جاتا رھا تھا۔

امام علی نقی(ع)

آپ کی زندگی میں بھی وھی خصوصیتیں موجود ھیں جو آپ کے آباؤ اجداد میں تھیں ۔

آپ کو متوکل نے مدینہ سے بلوا کر سامرے میں نظربند کیا اور متعدد اشخاص کی نگرانی آپ پر قائم کی ۔ مگر آپ کے اخلاق حمیدہ نے ھر ایک کو متاثر کیا۔ آپ کی خاموش زندگی صحیح اسلامی سیرت کی عملی مثال تھی اور ھمیشہ اس مشن کی جو تبلیغ دین و شریعت کا تھا حفاظت کرتے رھے ۔ ایسے موقعوں پر جب جذباتی انسان یا تو مرعوب ھو کر دوسرے کا ھم رنگ ھو جائے یا مشتعل ھو کر مرنے مارنے پر تیار ھو جائے یہ ضبط نفس معراج انسانیت کا نمونہ تھا کہ نہ اپنے جاوہ عمل کو چھوڑا جاتا تھا اور نہ تصادم کی صورت پیدا کی جاتی تھی ۔

متوکل کا دربار جھاں شراب کا دور چل رھا تھا۔ اس میں امام(ع) کی طلبی اور جام شراب کا پیش کیاجانا اور آپ کے انکار پر یہ فرمائش کہ کچھ اشعار ھی سنائیے اور آپ کا اس موقع سے وعظ کے لئے گنجائش نکالنا اور بے اعتباری دنیا اور محاسبہ نفس کی دعوت پر مشتمل وہ اشعار پڑھنا جنھوں نے اس محفل عیش کو مجلس وعظ میں تبدیل کرکے وہ اثر پیدا کیا کہ حاضرین زاروقطار رونے لگے اور بادشاہ بھی چیخیں مار مار کر گریہ کرنے لگا۔ یہ انھی حضرت زین العابدین﷼ کے وارث کا کام ھو سکتا تھا جنھوں نے دربار ابن زیاد و یزید میں اظھار حقائق کے کسی موقع کو کبھی نظرانداز نھیں کیا۔

قید کے زمانہ میں آپ جھاں بھی رھے آپ کے مصلے کے سامنے ایک قبر کھدی ھوئی تیار رھتی تھی ۔ یہ ظالم طاقت کو اس کے باطل مطالبہ اطاعت کا ایک خاموش اور عملی جواب تھا یعنی زیادہ سے زیادہ تمھارے ھاتہ میں جو ھے وہ جان کا لے لینا مگر جو موت کے لئے اتنا تیار ھو وہ ظالم حکومت سے ڈر کر باطل کے سامنے سر کیوں خم کرنے لگا۔

پھر بھی مثل اپنے بزرگوں کے حکومت کے خلاف کسی سازش وغیرہ سے آپ کا دامن ایسا بری رھا کہ باوجود دارالسلطنت کے اندر مستقل قیام اور حکومت کے سخت ترین جاسوسی نظام کے آپ کے خلاف کوئی الزام کبھی عائد نھیں کیا جا سکا۔ حالانکہ عباسی سلطنت اب کمزور ھو چکی تھی اور وہ دم توڑنے کے قریب تھی مگر آل محمد نے ان حکومتوں کو ھمیشہ اپنی موت مرنے کے لئے چھوڑا۔ ان کے خلاف کبھی کسی اقدام کی ضرورت محسوس نھیں فرمائی ۔

امام حسن عسکری علیہ السلام

آپ کے دور حیات کا اکثر حصہ عباسی دارالسلطنت سامرا میں نظربندی یا قید کی حالت میں گزرا مگر اس حالت میں آپ کی بلندکرداری اور سیرت بلند کے مظاھرات سے جو اثر پڑا اس کا تجزیہ مولانا سید ابن حسن صاحب جارچوی نے بھت اچھے الفاظ میں کیا ھے ۔

ھزاروں رومی اور ترکی غلام جو آھستہ آھستہ دربار خلافت میں رسوخ پا رھے تھے اور اپنی ان رشتہ دار عورتوں کی مدد سے جو بادشاہ کے حرم میں دخیل تھیں اعلیٰ عھدوں اور منصوبوں پر فائز ھوتے جا رھے تھے ۔ خلیفہ کی اخلاقی کمزوریوں کو دیکہ کر بالکل اسلام سے بیگانہ اور دین سے متنفر ھو جاتے مگر ان ائمھع دین نے جو خلیفہ کی بدکرداریوں کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ درجہ کی سیرت پیش کرتے تھے اسلام کا بھرم رکہ لیا۔ اور مسلم معاشرے کو بالکل برباد ھونے سے بچا لیا۔ جب عامة الناس آل رسول کے ان بھترین عمائد کو دیکھتے اور سیرت و کردار کے ان اعلیٰ نمونوں پر نگاہ ڈالتے تو ان کو یقین آ جاتا کہ دین اسلام کچھ اور چیز ھے اور اس کا نام لے کر ملکوں پر حکمرانی کرنا کچھ اور شے ھے…دارالحکومت اور شاھی دربار کے قرب میں ائمہ(ع) دین کی موجودگی نے اسلام کو ایک بڑے انقلاب سے بچا لیا۔ بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آ کر لوگوں نے اقربائے نبی کے دامن میں پناہ لی تھی اور سمجھتے تھے کہ اب ھم اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس اور اس کے احکام پر عمل پیرا ھوں گے جب عباسیوں کی آمد بھی دینی اور معاشرتی گتھیوں کو نہ سلجھا سکی تو فطری طور پر لوگوں کو یہ احساس پیدا ھو چلا کہ اسلام ھی امن پذیر معاشرہ پیدا کرنے سے قاصر ھے مگر ائمہ اھل بیت(ع) کے وجود نے مسلمانوں کو مطمئن کر دیا کہ اسلام کے صحیح مبلغ ابھی تک برسراقتدار نھیں آئے اور ان کو اصلاح امت، تشکیل سیرت و تعمیر اخلاق کا موقع نھیں ملا۔ اس لئے ملک کی بدحالی اور تباھی کا ذمہ دار اسلام نھیں ھے بلکہ وہ قابویافتہ جماعت ھے جو اسلام کا نام لے کر دنیا کے سر پر سوار ھو گئی ھے ۔ (تذکرہ محمد و آل محمد جلد ۳)۔

باوجود یہ کہ اپنے دور امامت میں آپ کی تقریباً پوری زندگی قید و بند میں رھی پھر بھی اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین(ع) اور دیگر اسلاف کی سیرت کے مطابق جب اسلام کو آپکی مدد کی ضرورت پڑی تو ظالم حکومت کے بڑھائے ھوئے فریاد کے ھاتہ کو کبھی ناکام واپس جانے نہ دیا۔ چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راھب نے بارش کراکے اپنی روحانیت کے مظاھرہ سے دارالسلطنت عباسیہ کے بھت سے مسلمانوں کے ارتداد کے آثار پیدا کر دیئے تو اس وقت امام حسن عسکری(ع) تھے جنھوں نے اس کے طلسم کو شکستہ کرکے مسلمانوں کی استقامت کا سامان بھم پھنچایا۔

اس کے علاوہ آپ نے سچے پرستارانِ دین کی دینی تعلیم و تربیت کے فریضہ کو نظرانداز نھیں کیا۔ اس کے لئے اپنی طرف سے سفراء مقرر کئے جو اپنی بصیرت علمی کی حد بھر خود مسائل شرعیہ کا جواب دیتے تھے اور جن مسائل میں امام(ع) سے دریافت کرنے کی ضرورت ھوتی تھی ان کا خود مناسب موقع پر امام(ع) سے جواب حاصل کرکے سائل کی تشفی کر دیتے تھے ۔ انھی کے ذریعہ سے اموالِ خمس کی جمع آوری ھوتی تھی اور وہ تنظیم سادات اور دیگر دینی مھمات پر صرف ھوتا تھا۔ اس طرح سلطنت دینوی کے متوازی حکومت دینی کا پورا ادارہ کامیابی کے ساتھ چل رھا تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next