انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


پھر اس دس برس میں بھی بدر واحد، خندق و خیبر سے آگے بڑھ کر ذرا حدیبیہ تک بھی تو آئیے ۔ یھاں پیغمبر کسی جنگ کے ارادہ سے نھیں بلکہ حج کی نیت سے مکہ معظمہ کی جانب آ رھے ھیں ۔ ساتہ میں وھی بلند حوصلہ فتوحات حاصل کئے ھوئے سپاھی ھیں جو ھر میدان سر کرتے رھے ھیں اور سامنے مکہ میں وھی شکست خوردہ جماعت ھے جو ھر میدان میں ھارتی رھی ھے اور اس وقت وہ بالکل غیرمنظم اور غیرمرتب بھی ھے پھر بھی ان کی حرکت مذبوجی ھے کہ وہ سد راہ ھوتے ھیں کہ ھم حج کرنے نہ دیں گے ۔ عرب کے بین القبائلی قانون کی رو سے حج کا حق کعبہ میں ھر ایک کو تھا۔ ان کا رسول کے سدراہ ھونا اصولی طور پر بنائے جنگ بننے کے لئے بالکل کافی تھا مگر پیغمبر نے اس موقع پر اپنے دامن کو چڑھائی کرکے جنگ کرنے کے الزام سے بری رکھتے ھوئے صلح کرکے واپسی اختیا رکی اور صلح بھی کیسے شرائط پر؟ ایسے شرائط پر جنھیں بھت سے ساتہ والے اپنی جماعت کے لئے باعث ذلت سمجھ رھے تھے اور جماعت اسلام میں عام طور سے بے چینی پھیلی ھوئی تھی ۔ ایسی شرطیں تھیں جیسی ایک فاتح کسی مفتوح سے منواتا ھے اس وقت واپس جائیے اس سال حج نہ کیجئے آئندہ سال آئیے گا صرف تین دن تک مکہ میں رھئے گا۔ چوتھے دن آپ میں سے کوئی نظر نہ آئے گا دوران سال میں ھم میں سے کوئی بھاگ کر آپ کے پاس جائے تو آپ کو واپس کرنا پڑے گا اور آپ میں سے کوئی بھاگ کر ھمارے پاس آئے تو ھم واپس نھیں کریں گے ۔ انھیں یہ شرائط پیش کرنے کی ھمت کیوں ھوئی؟ یقیناً صرف اس لئے کہ وہ مزاج نبوت سے یہ سمجھ لئے تھے کہ آپ اس وقت جنگ نھیں کریں گے ۔ بس کم ظرف جب یہ سمجھ لیتا ھے کہ مقابل تلوار نھیں اٹھائے گا تو وہ بڑھتا ھی چلا جاتا ھے ۔ آپ نے سب شرائط منظور کر لئے اور واپس تشریف لے گئے ۔

اس کے بعد جب مشرکین کی طرف سے عھدشکنی ھوئی اور حضرت فاتحانہ حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ھوئے تو اس وقت گزشتہ واقعات کی بناء پر ایک انسان کے کیا جذبات ھو سکتے ھیں؟ جنھوں نے تیرہ برس جسم مبارک پر پتھرے مارے جنھوں نے توھین و ایذارسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ان کے ھاتھوں وطن چھوڑنا پڑا۔ اور اس کے بعد بھی انھوں نے چین لینے نہ دیا۔ بلکہ جب تک دم میں دم رھا بار بار خونریز حملے کرتے رھے جس میں کتنے ھی عزیز اور دوست خاک و خون میں تڑپتے نظر آئے ۔ خصوصیت کے ساتہ اپنے ھمدرد چچا جناب حمزہ کا بعدِ قتل سینہ چاک ھوتے دیکھنا۔ آج وھی جماعت سامنے تھی اور بالکل بے بس، اپنے قبضے میں یہ وقت تھا کہ ان کے گزشتہ تمام بھیمانہ حرکات کی آج سزا دی جاتی، مگر اس مجسم رحمت الٰھی نے جب انھیں بے بس پایا تو عام اعلان معافی کر دیا۔ اور ایک قطرھٴ خون زمین پر گرنے نہ دیا۔

اب دنیا بتائے کہ پیغمبر جنگ پسند تھے یا امن پسند؟ حقیقتہ ان کی جنگ یا صلح کوئی بھی جذبات کی بناء پر نہ تھی بلکہ فرائض کے ماتحت کام ھوتاتھا جس وقت فرض کا تقاضا خاموشی تھی خاموش رھے اور جب حالات کے بدلنے سے ضرورت جنگ کی پڑ گئی جنگ کرنے لگے ۔ پھر جب امکانِ صلح پیدا ھو گیا اور بلندی اخلاق کا تقاضا صلح کرنا ھوا تو صلح کر لی ۔ اور جب دشمن بالکل بے بس ھو گیا تو عفو و کرم سے کام لے کر اسے معاف کر دیا۔

یہ سب باختلافِ حالات فرائض کی تبدیلیاں ھیں جو آپ کے کردار میں نمایاں ھوتی رھی ھیں ۔ فرائض کی یھی پابندی طبیعت کے دباؤ سے جتنی آزاد ھو، وھی معراج انسانیت ھے ۔

معراجِ انسانیت سِیرت حضرت سّید الا وصیٰاء کی روشنی میں

رسول (ص)کے بعد دوسری معیاری شخصیت جو ھمارے سامنے ھے وہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی ھے ۔

آپ کی دس سال کی عمر ھے جب پیغمبر مبعوث برسالت ھوتے ھیں اور علی بن ابی طالب (ع) ان کی رسالت کے گواہ ھوتے ھیں ۔ یہ پھلے ھی سے رسول (ص) کی آغوشِ تربیت میں تھے اور آغوش میں دعوتِ اسلام کی پرورش شروع ھوئی ۔ یوں کھنا چاھئے کہ اسلام نے آنکہ کھول کر انھیں دیکھا اور ان کی نگاہ وہ تھی کہ اعلانِ رسالت کے پھلے رسول (ص)کی رسالت کو دیکہ رھے تھے ۔ خود اپنے بچپن کی کیفیت نھج البلاغہ کے ایک خطبے میں بتائی ھے کہ:

کُنتْ اَتبِعہ

اِتَبّاعَ الفَصیل

اثرَامُّہ اشّم



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next