انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


معلوم ھوتا ھے کہ یہ وہ ھیں جن پر ماحول کا اثر نھیں پڑتا بلکہ وہ ھر ماحول میں کسی نہ کسی طرح اپنے فرض کو انجام دیتے رھتے ھیں جو انسانیت کی عملی معراج ھے ۔

امام محمد تقی علی السلام

آپ پانچویں برس میں تھے جب آپ کے والد بزرگوار امام رضا(ع) سلطنت عباسیہ کے ولی عھد ھو گئے اس کے معنی یہ ھیں کہ سن تمیز پر پھنچنے کے بعد ھی آپ نے آنکہ کھول کر وہ ماحول دیکھا جس میں اگر چاھا جاتا تو عیش و آرام میں کوئی کمی نہ رھتی مال و دولت قدموں سے لگا ھوا تھا اور تزک و احتشام آنکھوں کے سامنے تھا پھر باپ سے جدائی بھی تھی کیونکہ امام رضا(ع) خراسان میں تھے اور متعلقین تمام مدینہ منورہ میں تھے ۔ اور پھر آپ کو آٹھواں ھی برس تھا کہ امام رضا(ع) نے دنیا ھی سے مفارقت فرمائی ۔

یہ وہ منزل ھے کہ جھاں ھمارے تاریخی کارخانہ تحلیل و توجیھہ کی تمام دوربینیں بیکار ھو جاتی ھیں ۔ کسی دنیوی مکتب اور درسگاہ میں تو نہ ان کے آباؤاجداد کبھی گئے نہ یہ جاتے نظر آتے ھیں ۔ ھاں ایک معصوم کے لئے معصوم بزرگوں کی تعلیم و تربیت ناقابل انکار ھے مگر یھاں معصوم باپ سے چار پانچ برس کی عمر میں جدائی ھو گئی ۔ ایک توارثِ صفات رہ جاتا ھے مگر ھر ایک جانتا ھے کہ اس سے صلاحیت کا حصول ھوتا ھے ۔ فعلیت کے لئے پھر اسباب ظاھری کی ضرورت ھے ۔ مگر یہ تاریخی واقعہ ھے کہ امام محمد تقی(ع) نے بچپن کی جتنی منزلیں اس کے بعد طے کیں وہ ابھی شباب کی سرحد تک بھی نہ تھیں کہ آپ کی سیرت بلند کی مثالیں اور علمی کمال کی تجلیاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے آگئیں ۔ یھاں تک کہ امام رضا(ع) کی وفات کے بعد ھی شاھی دربار میں اکابر علمائے وقت سے مباحثہ ھوا تو سب کو آپ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔

اب یہ واقعہ کوئی صرف اعتقادی چیز بھی نھیں ھے بلکہ مسلم الثبوت طور پر تاریخ کا ایک جز ھے یھاں تک کہ اس مناظرہ کے بعد اسی محفل میں مامون نے اپنی لڑکی ام الفضل کو آپ کے حبالہ عقد میں دیا۔

یہ سیاست مملکت کا ایک نئی قسم کا سنھرا جال تھا جس میں امام محمد تقی(ع) کی کمسنی کو دیکھتے ھوئے خلیفہ وقت کو کامیابی کی پوری توقع ھو سکتی تھی ۔

جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ ”نویں امام“ (شائع کردہ امامیہ مشن) میں لکھا ھے ۔

”بنی امیہ کے بادشاھوں کو آلِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا جتنا ان کے صفات سے ۔ وہ ھمیشہ اس کے درپے رھتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ھے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ھوا ھے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے وہ گھبرا گھبرا کر مختلف تدبیریں کرتے تھے ۔ امام حسین(ع) سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا(ع) کو ولی عھد بنانا اسی کا دوسرا طریقھ۔

فقط ظاھری شکل میں ایک کا انداز معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں باتوں کی ایک تھی ۔ جس طرح امام حسین(ع) نے بعیت نہ کی تو وہ شھید کر ڈالے گئے اسی طرح امام رضا(ع) ولی عھد ھونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ نہ چل سکے تو آپ کی شمع حیات کو زھر کے ذریعہ سے ھمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔

اب مامون کے نقطھٴ نظر سے یہ موقع انتھائی قیمتی تھا کہ امام رضا(ع) کا جانشین آٹہ نو برس کا ایک بچہ ھے جو تین چاربرس پھلے ھی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجہ بوجہ کھہ رھی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقہ پر لانا نھایت آسان ھے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتھائی خطرناک، قائم ھے ھمیشہ کے لئے ختم ھو جائے گا۔

مامون امام رضا(ع) کی ولی عھدی کی مھم میں اپنی ناکامی کومایوسی کا سبب تصور نھیں کرتا تھا اس لئے کہ امام رضا(ع) کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی اس میں تبدیلی نھیں ھوئی تو یہ ضروری نھیں کہ امام محمد تقی(ع) آٹہ برس کے سن میں خاندان شھنشاھی کا جز بنا لئے جائیں تو وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار رھیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next