انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام

آپ کا دور بھی مثل اپنے پدر بزرگوار کے وھی عبوری حیثیت رکھتا تھا جس میں شھادت حضرت امام حسینع سے پیداشدہ اثرات کی بنا پر بنی امیہ کی سلطنت کو ھچکولے پھنچتے رھتے تھے مگر تقریباً ایک صدی کی سلطنت کا استحکام ان کو سنبھال لیتا تھا بلکہ فتوحات کے اعتبار سے سلطنت کے دائرہ کو عالم اسلام میں وسیع تر کرتا جاتا تھا۔

حضرت امام محمد باقرع خود واقعہ کربلا میں موجود تھے اور گو طفولیت کا دور تھا یعنی تین چار برس کے درمیان عمر تھی مگر اس واقعہ کے اثرات اتنے شدید تھے کہ عام بشری حیثیت سے بھی کوئی بچہ ان تاثرات سے علیحدہ نھیں رہ سکتا تھا۔ چہ جائیکہ یہ نفوس جو مبداء فیض سے غیرمعمولی ادراک لے کر آئے تھے وہ اس کم عمری میں جناب سکینھع کے ساتھ ساتھ یقیناً قید وبند کی صعوبت میں بھی شریک تھے اس صورت میں انسانی و دینی جذبات کے ماتحت آپ کو بنی امیہ کے خلاف جتنی بھی برھمی ھوتی ظاھر ھے چنانچہ آپ کے بھائی زید بن علی بن الحسینع نے ایک وقت ایسا آیاکہ بنی امیہ کے مقابلے میں تلوار اٹھائی اسی طرح سادات حسنی عمیں سے متعدد حضرات وقتاً فوقتاً بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھوتے رھے حالانکہ واقعہ کربلا سے براہ راست جتنا تعلق حضرت امام محمد باقرع کو رھا تھا۔ اتنا جناب زید کو بھی نہ تھا چہ جائیکہ حسنی سادات جو نسبتاً دوسری شاخ میں تھے ۔ مگر یہ آپ کا وھی جذبات سے بلند ھونا تھا کہ آپ کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی کوشش نھیں ھوئی اور آپ کبھی کسی ایسی تحریک سے وابستہ نھیں ھوئے بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دور کی حکومت کو مفادِ اسلامی کے تحفظ کے لئے اسی طرح مشورے دیئے جس طرح آپ کے جد امجد حضرت علی بن ابی طالبع اپنے دور کی حکومتوں کو دیتے رھے تھے ۔ چنانچہ رومی سکوں کے بجائے اسلامی سکہ آپ ھی کے مشورہ سے رائج ھوا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے معاشیات میں دوسروں کے دست نگر نھیں رھے ۔

باوجودیکہ زمانہ آپکو والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین(ع)کے زمانہ سے بھتر ملا۔ یعنی اس وقت مسلمانوں کا خوف و دھشت اھل بیتع کے ساتھ وابستگی میں کچھ کم ھو گیا تھا اور ان میں علوم اھل بیت سے گرویدگی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیدا ھو گئی تھی کوئی دوسرا ھوتا تو اس علمی مرجعیت کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا مگر ایسا نھیں ھوا اور حضرت امام باقرع مسلمانوں کے درمیان ایک طرح کی مرجعیت عام حاصل ھونے کے باوجود سیاست سے کنارہ کشی میں اپنے والد بزرگوار کے قدم بہ قدم ھی رھے ۔

بے شک زمانہ کی سازگاری سے آپ نے واقعہ کربلا کے تذکروں کی اشاعت میں فائدہ اٹھایا۔ اب واقعہ کربلا پر اشعار نظم کئے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے ۔ امام زین العابدین(ع) کا گریہ آپ کی ذات تک محدود تھا اور اب دوسروں کو ترغیب و تحریص بھی کی جانے لگی ۔ اس کے علاوہ نشر علوم آل محمدع کے فریضہ کو کھل کر انجام دیا گیا۔ اور دنیا کے دل پر علمی جلالت کا سکہ بٹھا دیا گیا۔ یھاں تک کہ مخالفین بھی آپ کو ”باقرالعلوم“ ماننے پر مجبور ھوئے جس کا مفھوم ھی ھے ”علوم کے اسرار و رموز کو ظاھرکرنے والے“۔ اس طرح ثابت کر دیا کہ آپ اپنے کردار میں انھی علی بن ابی طالبع کے صحیح جانشین ھیں جنھوں نے پچیس برس تک سلطنت اسلامیہ کے بارے میں اپنے حق کے ھاتہ سے جانے پر صبر کرتے ھوئے صرف علوم و معارف اسلامیہ کے تحفظ کا کام انجام دیا۔ وھی ورثہ تھا جو سینہ بسینہ حضرت محمد باقرع تک پھنچا تھا۔ نہ امتداد زمانہ نےاس میں کھنگی پیدا کی تھی اور نہ اس رنگ کو مدھم بنایا تھا۔ نہ تسلسل مظالم کے اثر سے انتقامی جذبات کے غلبہ نے ان کو بنیادی مقاصد حیات سے غافل کیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام

آپ کا دور انقلابی دور تھا۔ وہ بیج بنی امیہ سے نفرت کے جو حضرت امام حسین(ع)کی شھادت نے دل و دماغ کی زمین میں بو دیئے تھے اب پورے طور پر بارآور ھو رھے تھے ۔ اموی تخت سلطنت کو زلزلہ تھا اور اموی طاقت روزبروز کمزور ھو رھی تھی اس دور میں بار بار ایسے مواقع آتے تھے جن میں کوئی جذباتی آدمی ھوتا تو فوراً ھوا کے رخ پر چلا جاتا اور انقلاب کے وقتی فوائد سے متمتع ھونے کے لئے خود بھی انقلابی جماعت کے ساتھ منسلک ھو جاتا۔ پھر جبکہ اسی ذیل میں ایسے اسباب بھی وقتاً فوقتاً پیدا ھوتے تھے ۔ جو بنی امیہ کے خلاف اس کے جذبات کو مشتعل کرنے والے ھوں ۔

زید بن علی بن الحسینع حضرت امام جعفر صادق کے چچا تھے خود بھی علم و ورع واتقاء میں ایک بلند شخصیت کے حامل تھے ۔ یہ بنی امیہ کے خلاف کھڑے ھوتے ھیں اور وہ بھی حضرت امام حسین(ع)کے خون کا بدلہ لینے کے اعلان کے ساتھ۔ یہ کیا ایسا موقع نہ تھا کہ حضرت امام جعفر صادق(ع)بھی چچا کے ساتھ اس مھم میں شریک ھو جائیں ۔ پھر اس کے بعد زید(ع)کا شھید کیا جانااور ان پر وہ ظلم کہ دفن کے بعد لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو قلم کرنے کے بعد جسد بے سر کو ایک عرصہ تک سولی پر چڑھائے رکھا تھا پھر آگ میں جلا دیا گیا۔ اس کے اثرات عام انسانی طبیعت میں کیا ھیجان پیدا کر سکتے ھیں؟

اور پھر عباسیوں کے ھاتہ سے انقلاب کی کامیابی اور سلطنت بنی امیہ کی اینٹ سے اینٹ بج جانا۔

اس تمام دور انقلاب یں ھر دن نئے نئے محرکات اور گوناگوں نفسانی مھیجات ھیں جو ایک انسان کو متحرک بنانے کے لئے کافی ھیں خصوصاً اس لئے کہ بنی عباس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والا ابو سلمہ خلال اولاد فاطمہ زھرا(ع)کی محبت کے ساتھ اتنا مشھور تھا کہ برسراقتدار آنے کے لئے امام جعفر صادق(ع)کے پاس تحریری عرضداشت بھیجی مگر آپ نے اس سے نہ صرف یہ کہ بے اعتنائی برتی بلکہ اس کاغذ کو اس شمع کی لو کے سپرد کر دیا جو اس وقت روشن تھی ۔ اور قاصد سے فرمایا کہ اس تحریر کا بس یھی جواب ھے اور پھر اسے پورے طویل دور انقلاب میں ایک دن ایسا نھیں آتا جو حضرت امام جعفر صادق(ع)میں کوئی حرکت پیدا کر سکا ھو ۔ سوا علوم اھل بیت(ع)کے تحفظ و اشاعت کی اس مھم کے جس کی کھل کر ابتداء آپ کے والد ماجد نے کر دی تھی اور اب اسی کو اپنی نسبتہ طویل عمر اور اس وقت کے انقلابی حالات کے وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پورے طور سے فروغ دینے کا موقع حضرت امام جعفر صادق(ع)کو ملا۔ جس کے نتیجہ میں مذھب اھلِ بیت(ع)عوام میں ”ملت جعفری“ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔

یہ کیا تھا؟ یہ وھی جذبات سے بلند ھونے کا قطعی مشاھدہ ھے جسے ”معراج انسانیت“ کی حیثیت سے ھم ان کے تمام پیش روؤں میں دیکھتے رھے ھیں ۔

بنی عباس کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد کچھ دن تو اولاد رسول(ع)کو سکون رھا مگر منصور دوانقی کے تخت سلطنت پر بیٹھتے ھی پھر فضا مکدر ھو گئی اور چونکہ یقین تھا کہ بنی امیہ کو جو ھم نے شکست دی ھے وہ اولاد فاطمہ(ع)کے ساتھ ھمدردی ھی سے فائدہ اٹھا کر۔ اس لئے یہ اندیشہ تھاکہ نہ جانے کب عوام کی آنکھیںکھل جائیں ۔ اور وہ اسی طرف جھک جائیں ۔ خصوصاً اس لئے کہ بنی امیہ کے زوال کے آثار واضح ھونے کے بعد جب بنی ھاشم نے مدینہ میں جمع ھو کر ایک مجلس مشاورت منعقد کی کہ انقلاب کی تکمیل کے بعد تخت سلطنت کس کے سپرد کیا جائے تو سب نے حسن مثنی فرزند امام حسن(ع)کے پوتے محمد بن عبداللہ کو اس منصب کا اھل قرار دیا تھا اورسب نے ان کے ھاتہ پر بیعت کی تھی ۔ اس جلسہ میں منصور بھی موجود تھا اور اس نے بھی محمد کے ھاتہ پر بیعت کی تھی اس کے بعد سیاسی ترکیبوں سے اس کارروائی کو نسیاً منسیا کرکے بنی عباس تخت خلافت پر قابض ھو گئے اس لئے بھت بڑا کانٹا جو منصور کے دل اور آنکہ میں کھٹک رھا تھا وہ محمد بن عبداللہ کا وجود تھا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد خصوصیت سے اولاد امام حسن (ع)کے خلاف ظلم و تشدد شروع کر دیا گیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next