تقویٰ اور رزق کا تعلق



<انک لاتھدی من اٴحببت ولکن الله یھدی من یشاء>[12][12]

”پیغمبر بیشک آپ جسے چا ھیں ھدایت نھیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ھے ھدایت دیدیتا ھے “

 Ù…یں یہ لفظ Ù¾Ú¾Ù„Û’ معنی میں استعمال ھوا Ú¾Û’ ۔طے شدہ بات Ú¾Û’ کہ یھاں جس ھدایت Ú©ÛŒ نفی Ú©ÛŒ جارھی Ú¾Û’ وہ منزل مقصود تک پھنچانے Ú©Û’ معنی میں Ú¾Û’ کہ یہ چیز صرف پروردگار عالم سے مخصوص Ú¾Û’ ورنہ راستہ دکھانا رھنمائی کرنا تو پیغمبر اسلام کا فریضہ اورآپ Ú©ÛŒ اھم ترین ذمہ داری Ú¾Û’ اس معنی میں پیغمبر اکرم  (ص) Ú©Û’ لئے ھدایت کا انکار کرکے اسے صرف پروردگا ر سے مخصوص کردینا ممکن نھیں Ú¾Û’ کیونکہ خداوند عالم پیغمبر Ú©Û’ بارے میں فرماتا Ú¾Û’ :

<وانک لتھدی الی صراطٍ مستقیم>[13][13]

”اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ھدایت کررھے ھیں “

اسی معنی میں قرآن کریم میں مومن آل فرعون کا یہ جملہ ھے :

<یا قوم اتّبعون اٴھدکم سبیل الرشاد >[14][14]

”اے قوم والو :میرا اتباع کرو،میں تمھیں ھدایت کا راستہ دکھا دوں گا “

یھاں پر بھی ھدایت ،راھنمائی اور راستہ دکھانے کے معنی میں ھے نہ کہ منزل مقصود تک پھنچانے کے معنی میں ۔۔۔اس حدیث شریف میں بھی ھدایت کے پھلے معنی (منزل تک پھنچانا) ھی زیادہ مناسب ھیںاس لئے کہ دوسرے معنی کا لازمہ یہ نھیں ھے کہ انسان ضائع نہ ھو بلکہ ایصا ل الی المطلوب ھی انسان کو ضائع ھونے سے بچاتا ھے اور انسان کو قطعی طور پر اللہ تک پھنچانے کا ضامن ھے

سیاق وسباق سے بھی یھی معنی زیادہ مناسب معلوم ھوتے ھیں اس لئے کہ یہ گفتگو ان لوگوں پرخصوصی فضل الٰھی کی ھے کہ جو اپنے خواھشات پر الله کی مرضی کو مقدم کرتے ھیں لہٰذا فضل وعنایت کاخصوصی تقاضا یہ ھے کہ انھیں منزل مقصود تک پھنچا یا جائے ورنہ رھنمائی اور راستہ دکھا ناتو خدا کی عام عنایت ورحمت ھے جوصرف مومنین سے یا ان لوگوں سے مخصوص نھیں ھے کہ جوالله کی مرضی کو مقدم کرتے ھوں بلکہ یہ عنایت تو ان لوگوں کے شامل حال بھی ھے کہ جو اپنی خواھشات کو الله کی مرضی پر مقدم کرتے ھیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next