تقویٰ اور رزق کا تعلق



الله بندہ کو بربادی اورضائع ھونے سے کیسے بچاتا ھے ؟

درحقیقت یہ کام بصیرت کے ذریعہ ھوتا ھے ۔بصیر ت کے اعلیٰ درجات پر فائز انسان قطعی طور پر ضائع ھونے سے بچ جاتا ھے ۔

لہٰذا جب خداوندعالم کسی بندہ کےلئے خیر کا ارادہ کرتا Ú¾Û’ اور اسے بربادی سے بچانا چا ہتا Ú¾Û’ تو اسے بصیرت مرحمت کر دیتا Ú¾Û’ جس Ú©Û’ نتیجہ میں وہ نجات پاجاتا Ú¾Û’ اور خدا تک اس Ú©ÛŒ رسائی قطعی ھوجاتی Ú¾Û’ یہ بصیرت اس منطقی دلیل وبرھان سے الگ Ú¾Û’ کہ جس Ú©Û’ ذریعہ بھی انسان خدا تک پھنچتا Ú¾Û’ اور اسلام اس کا بھی منکر نھیں Ú¾Û’ بلکہ اسے اپنا Ù†Û’ اوراختیار کرنے Ú©ÛŒ تاکید کرتا Ú¾Û’ وہ اسے  ھر شخص Ú©Û’ دل Ú©ÛŒ گھرائیوں میں اتارنا چاہتا Ú¾Û’ اس لئے کہ انسانوں Ú©ÛŒ بہت بڑی تعداد عقل Ùˆ منطق Ú©Û’ سھارے Ú¾ÛŒ خدا تک پھنچتی Ú¾Û’ Û”

بصیرت کا مطلب حق کا مکمل طریقہ سے واضح دکھائی دینا ھے ۔ایسی رویت منطقی استدلال کا نتیجہ بھی ھو سکتی ھے اور صفائے نفس اور پاکیزگی ٴ قلب کے ذریعہ بھی حاصل ھو سکتی ھے یعنی انسان کسی ایک راستہ سے اس بلند مقام تک پھنچ سکتا ھے یا عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعہ یا پاکیزگی ٴ نفس کے راستہ ۔

اسلام ان میں سے کسی ایک کو کافی قرار نھیں دےتا بلکہ اسلامی نقطہٴ نظر سے انسان کے اوپر دونوں کو اختیار کرنا ضروری ھے ۔یعنی عقلی روش کو اپنانا بھی ضروری ھے اور نفس کو پاکیزہ بنانا بھی ۔اس آیہٴ شریفہ میں قرآن مجید نے دونوں باتوں کی طرف ایک ساتھ اشارہ کیا ھے:

<ھوالذی بعث فی الامیّین رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکّیھم و یعلّمھم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبلُ لفی ضلالٍ مبینٍ >[15][15]

” اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“

تزکیہ کا مطلب صفائے قلب اور پاکیزگیٴ نفس ھے جس سے معرفت الھی کے بے شمار دروازے کھلتے ھیں ۔

 Ù…عرفت کا دوسرا باب (تعلیم )Ú¾Û’ بھر حال بصیر ت چاھے عقل ومنطق کا ثمرہ ھویا تزکیہ وتہذیب نفس کا یہ Ø·Û’ Ú¾Û’ کہ حیات انسانی میں بصیرت کا سر چشمہ پروردگار عالم Ú¾ÛŒ Ú¾Û’ اسکے علاوہ کسی اور جگہ سے بصیرت کا حصول ممکن نھیں Ú¾Û’ اور اس تک رسائی کا دروازہ عقل وتزکیہٴ نفس Ú¾Û’ Û”

بصیرت اور عمل



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next