غدیر اور اسلامی وحدت



”خداوندعالم کی اجازت سے اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ میں مذھب اھل بیت علیھم السلام کو بہت جلد ھی فلسطین میں نشر کروں گا یھاں تک کہ حضرت امام مہدی آل محمد (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) ظھور فرمائیں۔“

جس وقت الازھر یونیورسٹی مصر کی علماء کمےٹی کے صدر نے تشیع کے نشر اور اس کے دفاع کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا تو اس کے جواب میں موصوف نے کھا: ”میں صرف (یھی) کہتا ھوں: خداوندا! میری قوم کی ہدایت فرما، وہ نھیں جانتی۔۔۔“، اس کے بعد کہتے ھیں: ”میں اس بات کے جواب میں جو اس زبان پر جاری کی وہ یہ کہ مذھب شیعہ کی نسبت میری جھالت اس بات کی باعث ھوئی کہ میں مذھب شیعہ اختیار کرلوں، صرف ایک نکتہ پر تاکید کرتا ھوں کہ در حقیقت یہ شیعیت کی نسبت لاعلمی اور جھالت تھی جس نے مجھے اس وقت تک اھل سنت کے مذھب پر باقی رکھا،لیکن اب میں حق و حقانیت کا اعتراف کرتا ھوں۔“[47]

۱۱۔ فلسطینی حکیم اسعد وحید قاسم

موصوف نے بھی شیعہ مذھب کے سلسلہ میں بہت مطالعہ کے بعد شیعیت کو انتخاب کرلیا، اور مختلف طریقوں سے شیعہ مذھب کی حقانیت کو لوگوں پر واضح کرنا شروع کردیا اوراس سلسلہ میں بہت زیادہ کوشش بھی کی، موصوف اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ھیں: ”میرے عقیدہ کے مطابق شیعہ مذھب ھی اسلام ھے، اور اسلام ھی شیعہ مذھب ھے“،[48]موصوف نے بھی مذھب اھل بیت علیھم السلام کے دفاع میں بہت سی کتابیں لکھی ھیں جن میں سے ”ازمةالخلافة و الامامة و آثارھا المعاصرة“ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ھے۔

قارئین کرام!  مذھب شیعہ Ú©ÛŒ حقانیت اس بات کا سبب بنی کہ اھل سنت Ú©Û’ بہت سے ماننے والے یا دوسرے ادیان Ùˆ مذاھب Ú©Û’ ماننے والے اس مذھب Ú©Û’ دلدادہ ھوگئے، اور پاک فطرت انسان اور حقیقت Ú©Û’ تلاش کرنے والوں Ù†Û’ شیعیت Ú©ÛŒ حقانیت Ú©Ùˆ دیکھ اس مقدس مذھب Ú©Ùˆ اپنا لیا۔

یہ تھے اس مختصر سی کتاب میں بیان ھونے والے چند نمونے تھے۔

Û´Û”  دینی مرجع کا انتخاب کرنا

مسئلہ امامت کے دو پھلو ھیں: ایک تاریخی اور دوسرا دینی ، فرض کریں کہ اس مسئلہ کے تاریخی پھلو کا زمانہ گزر گیا ھے تو پھر بھی دینی پھلو کے اثر ات اب تک باقی ھیں اور روز قیامت تک باقی رھیں گے، اگر امامت و ولایت کے سلسلہ میں بحث کریں تو اس کا ایک اھم حصہ یہ ھے کہ ھمارا دینی مرجع کون ھیں؟ دین کن لوگوں سے حاصل کریں؟پیغمبر کی حقیقی سنت کس کے نزدیک ھے؟ کیا ھم دین اور اسلام کے معارف و تعلیمات کو ابو الحسن اشعری، ابن تیمیہ جیسے لوگوں سے حاصل کریں اور فروع دین یعنی شرعی مسائل کو چاروں مذھب کے کسی ایک امام سے لے لیں، جیسا کہ اھل سنت اور وھابی لوگ کہتے ھیں، یا ھم معصوم حضرات کی پیروی کریں کہ جو اھل بیت علیھم السلام کے علاوہ کوئی نھیں ھے؟

جس چیز پر آیات و روایات بہت زور دیتی ھیں اور شیعہ اثنا عشری اس پر تاکید کرتے ھیںوہ یہ ھے کہ صاحب رسالت حضرت پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو ایک طویل زمانہ گزر گیا ھے اور مسلمانوں کے مذاھب میں اختلاف نظر پایا جاتا ھے، ایسے موقع پر ھر مسلمان پر واجب ھے کہ سنت نبوی اور دینی تعلیمات تک پھنچنے کے لئے ایسے راستے کو اپنائے جس پر وہ خود مطمئن ھو، لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کو مقام خلافت و ولایت پر منصوب ماننا نہ صرف یہ کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد اسلامی رھبری و حاکمیت اور سیاسی امور کی مشکل کو دور کردیتا ھے بلکہ امام علیہ السلام کودینی مشکلات دور کرنے اور عوام کے شرعی مسائل حل کرنے کا بھی مرجع قرار دیتا ھے، وہ مشکلات جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد پیدا ھوئیں بلکہ ان میں شدت پیدا ھورھی ھے ، اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے اس اھم مسئلہ پر تاکید فرمائی، اور اھل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی توصیف کرتے ھوئے لوگوں سے خطاب کیا:

Û±Û” ”فاٴین تذھبون؟ Ùˆ اٴنی توٴفکون Ùˆ الاٴعلام قائمة Ùˆ الآیات واضحة Ùˆ المنار منصوبة فاٴین یتاہ بکم Ùˆ کیف تعمھون Ùˆ بینکم عترة نبیّکم؟ Ùˆ Ú¾Ù… اٴزمّة  الحقّ Ùˆ اٴعلام الدّین Ùˆ اٴلسنة الصّدق“ [49]

”اے لوگو! کھاں جارھے ھو؟ کیوں حق سے منحرف ھورھے ھو؟ حق کے پرچم قائم ھیں، اور اس کی نشانیاں واضح ھیں، حالانکہ چراغ ہدایت، راستہ کو منور کئے ھوئے ھے، لیکن تم گمراھوں کی طرح کدھر جارھے ھو؟ کیوں تم سرگرداں اور پریشان ھو؟ جبکہ تمھارے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی عترت (اور آپ کے اھل بیت علیھم السلام) تمھارے درمیان موجود ھیں، وہ حق کے زمامدار ، دین کے پیشوا اور سچائی کی زبانیں ھیں۔“

۲۔ ”انظروا اٴھل بیت نبیّکم فالزموا سمتھم و اتّبعوا اٴثر ھم فلن یخرجوکم من ہدی و لن یعیدوکم فی ردی فإِن لبدوا فالبدوا و إن نہضوا فانہضوا و لا تسبقوھم فتضلّوا و لا تتاٴخّروا عنھم فتھلکوا“[50]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next