غدیر اور اسلامی وحدت



”اسلام ، ھر دین پر برتری رکھتا ھے اور کوئی بھی دین اس پر برتری نھیں رکھتا۔“

تو پھر مسلمان کیوں استعمار Ú©ÛŒ غلامی میں حتی دوسرے اسلامی ملکوں Ú©Û’ خلاف ایک دوسرے پر سبقت Ù„Û’ رھے ھیں؟ کیوں ایک اسلامی ملک استعمار Ú©ÛŒ اچھی خدمت Ú©ÛŒ خاطر ایک اسلامی ملک پر قبضہ کرنے Ú©Û’ انعام میں قبضہ کرنے والوں Ú©Ùˆ افتخار کا تمغہ دے؟ Ú¾Ù… کیوں سوئے ھوئے ھیں؟ کیوں غافل ھیں؟ کیوں ”تاجیکستان“ Ú©ÛŒ قوم دو لاکھ شھید دینے اور بیس لاکھ بے گھر ھونے Ú©Û’ بعد بھی کامیاب نھیں ھوسکی؟ لیکن ایرانی قوم Ù†Û’ ایک سال میں بہت Ú©Ù… شھید دے کر Û²ÛµÛ°Û° سالہ طاغوتی حکومت کا تختہ پلٹ دیا، اس کا راز صرف حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے نمونے اور آئےڈیل رکھنا Ú¾Û’ØŒ کونسا ملک Ú¾Û’ جو اپنی کامیابی Ú©ÛŒ ابتدائی زمانہ سے استعمار اور اسکتبار Ú©ÛŒ طرف سے تھونپی گئی جنگ میں آٹھ سال تک Ù„Ú‘Ù†Û’ Ú©Û’ بعد سرفراز رھے؟ کیا یہ امام حسین علیہ السلام اور اھل بیت علیھم السلام Ú©Ùˆ نمونہ عمل قرار دینے Ú©Û’ علاوہ کسی اور چیز کا نتیجہ Ú¾Û’ØŒ اور کیا حضرت ابو الفضل العباس Ú©Ùˆ نمونہ عمل قرار دینے Ú©Û’ علاوہ کوئی اور چیز Ú¾Û’ØŸ یہ میرا دعویٰ نھیں Ú¾Û’ کہ میں ایک شیعہ ھوں،بلکہ یہ دعویٰ بہت سے اسلامی ملکوں Ú©ÛŒ سیاسی اور انقلابی شخصیتوں Ù†Û’ کیا Ú¾Û’ØŒ جو اپنی امت Ú©ÛŒ بے حسی سے رنجیدہ ھیں، فلسطین Ú©Û’ واقعہ Ú©Ùˆ  افسوس Ú©Û’ ساتھ Ú¾Ù… Ù†Û’ دیکھا Ú¾Û’ اور دیکھ رھے ھیں کہ بعض اسلامی ملکوں Ù†Û’ ذرا بھی ردّ عمل ظاھر نھیں کیا یھاں تک کہ ایک مظاھرہ Ú©ÛŒ حد تک بھی نھیں جو خود ان Ú©Û’ نفع میں تھا، کیونکہ اسرائیل تمام اسلامی ملکوں پر نظریں جمائے ھوئے Ú¾Û’ØŒ لیکن گویا فلسطینی قوم Ú©Û’ لئے اےسا لگتا Ú¾Û’ کہ کوئی حادثہ Ú¾ÛŒ پیش نھیں آیاو، جو خود ان Ú©ÛŒ طرح انسان اور ان Ú©Û’ Ú¾ÛŒ دین سے ھیں، اور وہ اس پرندہ Ú©ÛŒ طرح  ھیں جو اپنے آشیانہ سر چھپائے بیٹھا Ú¾Û’ اور شکاری Ú©Ùˆ نھیں دیکھ رھا Ú¾Û’ØŒ اور کہتا Ú¾Û’ کہ دشمن نھیں Ú¾Û’ØŒ عیش Ùˆ عشرت میں مشغول ھیں، لیکن غفلت Ú©ÛŒ وجہ سے اچانک دشمن ان Ú©Û’ سر پر مسلط ھوجاتا Ú¾Û’ اور سب کا شکار کرلیتا اور نیست Ùˆ نابود کردیتا Ú¾Û’ØŒ لیکن شیعہ اثنا عشری مسلمان شھنشاھی حکومت پر کامیابی Ú©Û’ باوجود تمام اسلامی اقوام Ú©ÛŒ فکر میں ھیں، فلسطین، افغانستان، Ú†Ú†Ù† اور عراق سے Ù„Û’ کر بوسنی اور دوسرے اقوام تک تمام مسلمان اقوام Ú©Ùˆ ھر ممکن طریقہ سے مدد پھنچانے Ú©ÛŒ کوشش میں ھیں، اگرچہ اس راہ میں بہت بھاری قیمت ادا کرچکا Ú¾Û’Û” یہ سب Ú©Ú†Ú¾ نھیں Ú¾Û’ØŒ مگر اس وجہ سے کہ شیعہ اثنا عشری اپنے لئے Ú©Ú†Ú¾ نمونے اورآئےڈیل رکھتے ھیں، جنھوں Ù†Û’ تاریخ Ú©Û’ آخر تک Ú©Û’ لئے یادگار درس Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Û’ ھیں، شیعہ امام علی علیہ السلام جےسا آئےڈیل رکھتے ھیںکہ جنکا اعتقاد Ú¾Û’ کہ اگر انسان ایک یھودی Ú©Û’ پیر سے پازیب Ú†Ú¾Ù† جانے پر اپنی جان دیدے تو اس Ú©Û’ لئے مناسب Ú¾Û’ØŒ شیعہ حضرت امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ طرح آئےڈیل رکھتے ھیں جو فرماتے ھیں: ”نہ کسی پر ظلم کرو، اور نہ کسی کا ظلم برداشت کرو“، اور جو فرماتے ھیں: ”ھیھات منا الذلة“ Ø› (Ú¾Ù… سے ذلت دور Ú¾Û’ØŒ) اور جو فرماتے ھیں: ”سرخ موت (یعنی شھادت) ذلت Ú©ÛŒ موت سے بہتر ھے“، جو اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ امر بالمعروف اور Ù†Ú¾ÛŒ عن المنکر Ú©Û’ لئے کبھی جان بھی دی جاسکتی Ú¾Û’Û”

اس زمانہ میں امامت کی بحث در حقیقت نمونوں اور آئیڈیل کی بحث ھے، امامت کی بحث در حقیقت ھر میدان میں نمونہ عمل کی بحث ھے: عبادت کا پھلو ھو یا گھریلو زندگی ، ذاتی ذمہ داریوں کی بات ھو یا معاشرتی امور کا مسئلہ ، خلاصہ ھمارے پاس ھر میدان میں نمونے موجود ھیں، اور یھی نمونے ھیں جو انسان کی آئندہ زندگی کی تصویر کشی کرتے ھیں، اور زندگی کے صفحات کو کھولتے ھیں، جو بچہ بچپن ھی سے ”ھیھات منا الذلة“ کی پٹی سر پر باندھ کر اور امام حسین علیہ السلام کی مجلس میں شرکت کرتا ھے، اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ قرار دیتا ھے، تو یہ بچہ بڑا ھوکر کبھی بھی ذلت و رسوائی کو قبول نھیں کرے گا، جیسا کہ اس کے مولا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام نے کیا ھے، انسان نمونہ کو اپنا نصب العین قرار دیتا ھے، تاکہ اس کی اقتدا کرتے ھوئے اس کے نزدیک ھوجائے، اس کی نزدیکی سے خداوندعالم کی قربت ھوتی ھے، لہٰذا کتنا اچھا ھو کہ اپنے لئے بہترین نمونہ کا انتخاب کیا جائے، وہ جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں کوئی بھی گناہ نہ کیا ھو، اور کبھی کسی خطا اور غلطی کے مرتکب نہ ھوئے ھوں، یہ حقیقی امام کی ذات ھوتی ھے جو حق کو باطل سے، نیک کو بد سے اور مفید کو نقصان دہ سے الگ کردیتی ھے، اگر میں حسین بن علی علیھما السلام کا پیرو ھوں تو پھر فاسق و فاجر حاکم کی بیعت کے لئے ھاتھ نھیں بڑھاؤں گا، لیکن اگر عبد اللہ بن عمر جیسے شخص کی پیروی کروں تو پھر تاریخ کے مشھور و معروف خونخوار حجاج بن یوسف ثقفی کے ھاتھوں بیعت کروں گا، جیسا کہ احمد بن حنبل نے عبد اللہ بن عمر کو نمونہ قرار دیتے ھوئے متوکل کی بیعت کی، یہ امامت ھی تو ھے جو معیاروں اور نعروں کو معین کرتی ھے، لہٰذا ”امامت“، اور ”غدیر“ کی بحث صرف ایک تاریخی اور بے فائدہ بحث نھیں ھے، بلکہ ایک تازہ بحث ھے، ایک زندہ بحث ھے جس سے اسلامی معاشرہ بلکہ عالم بشریت کی حیات وابستہ ھے، امامت اس چیز کا نام ھے جو انسان کی روح اور اس کی حقیقت سے رابطہ رکھتی ھے، امامت انسان کے راستہ کو واضح کرتی ھے، امامت انسان کی دنیا و آخرت سے رابطہ رکھتی ھے، امامت اس حقیقت کو کہتے ھیں جو انسان کی زندگی میں قدم قدم پر موثر واقع ھوتی ھے۔

Û¶Û”  دلیل Ùˆ برھان Ú©Û’ ساتھ مذھب کا انتخاب

کیا Ú¾Ù… میں سے ھر شخص Ù†Û’ اپنے مذھب Ú©Ùˆ دلیل Ùˆ برھان اور تحقیق Ú©Û’ ساتھ انتخاب کیا Ú¾Û’ØŒ یا Ú¾Ù… Ú©Ùˆ یہ مذھب میراث میں ملا Ú¾Û’ØŸ کیونکہ ھمارے ماں باپ اس مذھب پر عقیدہ رکھتے تھے لہٰذا Ú¾Ù… بھی اسی مذھب پر ھیں؟ کیا امامت ان اعتقادی اصول میں سے نھیں Ú¾Û’ جن پر ھمارے پاس دلیل ھونا چاہئے؟ Ú©Ù† وجوھات Ú©ÛŒ بنا پر میں Ù†Û’ اس مذھب Ú©Ùˆ قبول کیا Ú¾Û’ØŸ کیا وہ اسباب قرآنی، حدیثی یا عقلی ھیں یا وہ اسباب نسل پرستی اور قومی تعصب Ú¾Û’ جس Ú©ÛŒ کوئی اصل Ùˆ بنیاد نھیں ھوتی؟ کس دلیل Ú©ÛŒ وجہ سے دوسرے مذاھب ھمارے مذھب سے افضل نھیں ھیں؟ کیا Ú©Ù„ میں اپنے ان اعتقاد کا ذمہ دار نھیں ھوں؟ یہ ایسے سوالات ھیں جو ھر انسان Ú©Û’ Ø°Ú¾Ù† میں پیدا ھوسکتے ھیں، اور ان Ú©Û’ جوابات بھی اسی Ú©Ùˆ دینا ھیں، ان کا جواب امامت Ú©ÛŒ بحث Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ نھیں ھوسکتا، کیونکہ تمام Ú¾ÛŒ مذاھب کا محور ”مسئلہ امامت“  Ú¾Û’Û”

اندھی تقلید

تقلید اگرچہ بعض مقامات پر صحیح اور قابل تعریف ھے، جیسے شرعی مسائل میں جاھل کا کسی عالم کی تقلید کرنا، لیکن یھی تقلید بعض دوسرے مواقع پر صحیح نھیں ھے، جس کی شریعت اور عقل نے مذمت کی ھے، مثلاً جاھل کا کسی دوسرے جاھل کی تقلید کرنا، یا کسی عالم کا کسی دوسرے عالم کی تقلید کرنا جب کہ وہ خود اس کے برخلاف نتیجہ پر پھنچ چکا ھو، لہٰذا قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:

<وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلَی مَا اٴَنزَلَ اللهُ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا اٴَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لاَیَعْلَمُونَ شَیْئًا وَلاَیَہْتَدُونَ>[58]

”اور جب ان سے کھا جاتا ھے کہ خدا کے نازل کئے احکام اور اس کے رسول کی طرف آوٴ، تو کہتے ھیں کہ ھمارے لئے وھی کافی ھے جس پر ھم نے اپنے اباء و اجداد کو پایا ھے، چاھے ان کے آباء واجداد نہ کچھ سمجھتے ھوں اور نہ کسی طرح کی ہدایت رکھتے ھوں۔“

نیز قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

<وَکَذَلِکَ مَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی قَرْیَةٍ مِنْ نَذِیرٍ إِلاَّ قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَائَنَا عَلَی اٴُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَی آثَارِہِمْ مُقْتَدُونَ> [59]

”اور اسی طرح ھم نے آپ سے پھلے کی بستی میں کوئی پیغمبر نھیں بھیجا مگر یہ کہ اس بستی کے خوشحال لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ھم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ھے اور ھم انھیں کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ھیں۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next