غدیر اور اسلامی وحدت



اس حقیقت میں کوئی شک نھیں کہ ھر مسلمان کی ذمہ داری ھے کہ ”دین حنیف“ (یعنی حقیقی دین) کو حفظ کرے ، اور اس کو پھیلانے کی کوشش کرے، لہٰذا یہ سبھی کی اھم ذمہ داری ھے۔

اسی طرح چونکہ مسلمانوں کے بہت سے مشترک دشمن ھیں جو اسلام اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے ھیں ۔ لہٰذا ھم سب کو متحد ھوکر اسلام کے ارکان اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے کوشش کرنا چاہئے، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ دوسری ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال دیا جائے، اور اسلام کے مسلّم حقائق کو بیان نہ کیا جائے۔ لہٰذاھر گز اےسا نھیں ھونا چاہئے کہ وحدت اور اتحاد کے مسئلہ کو اصلی و ہدف قراردیکر شریعت کے حقائق کوفرعی اور ان پر قربان کردیا جائے، بلکہ اس کے برخلاف اگر اسلام نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کی سفارش کی ھے تو اس کی وجہ بھی دین اسلام کی حفاظت بیان کی ھے، اب یہ کیسے ممکن ھے کہ ”وحدت“ کا مسئلہ کسی کی نظر میں اتنا اھم دکھائی دے کہ بعض دینی مسلمات اور مذھب کے ارکان کو ترک کردے، یا بیجا اور فضول تاویلات پر اتر آئے۔

اس حقیقت پر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©ÛŒ سیرت اور تاریخ بہترین گواہ ھیں، آنحضرت   اگرچہ جانتے تھے کہ بنی امیہ حضرت علی علیہ السلام اور بنی ھاشم Ú©Û’ مخالف ھیں، اوربعض افراد ھر گز حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ ولایت اور حکمرانی Ú©Û’ تحت نھیں جائیں Ú¯Û’ØŒ اور آپ Ú©ÛŒ امامت Ú©Ùˆ بھی کبھی قبول نھیں کریں Ú¯Û’ØŒ لیکن اس Ú©ÛŒ وجہ سے اےسا نہ ھوا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ù†Û’ حق Ùˆ حقیقت Ú©Ùˆ بیان کرنے سے گریزکیا ھویا اور جھاں بھی موقع ملا Ú¾Ùˆ حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ ولایت Ùˆ امامت Ú©Ùˆ بیان نہ کیا ھو، بلکہ اپنی بعثت Ú©Û’ Û²Û³ سال میں جیسے بھی ممکن ھوا حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ ولایت Ùˆ امامت Ú©Ùˆ اصحاب Ú©Û’ سامنے بیان کیا، جبکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ لوگ میری وفات Ú©Û’ بعد اس مسئلہ پر اختلاف کریں Ú¯Û’ØŒ بلکہ یہ اختلاف حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف Ú©Û’ ظھور تک باقی اور جاری رھے گا۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ù†Û’ ان تمام چیزوں Ú©Û’ باوجود بھی حق Ú©Ùˆ بیان کیا، پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)حالانکہ جانتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ امامت Ú©Û’ مسئلہ پر قیامت تک اختلاف رھے گا پھر بھی آنحضرت(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ù†Û’ اس طرح حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ امامت پر تاکید فرمائی یھاں تک کہ روز غدیر Ø´Ú© Ùˆ شبہ Ú©Ùˆ دور کرنے Ú©Û’ لئے حضرت علی علیہ السلام Ú©Û’ ھاتھوں Ú©Ùˆ اٹھاکر حضرت علی علیہ السلام Ú©Ùˆ اپنا جانشین قرار دیا اور آپ Ú©ÛŒ ولایت پر تاکید فرمائی تاکہ سب دیکھ لیں کہ پیغمبر  Ú©Ùˆ آپکی ولایت پر کتنا اصرار Ú¾Û’Û”

قارئین کرام!  یھاں تک Ú©ÛŒ باتوں سے یہ بات بالکل واضح ھوجاتی Ú¾Û’ کہ حق Ùˆ حقیقت Ú©Ùˆ بیان کرنا اصل Ú¾Û’ اور کبھی وقت اس Ú©Ùˆ نظر انداز نھیں کرنا چاہئے؛ یھاں تک کہ اگر ھمیں معلوم Ú¾Ùˆ کہ اس Ú©Ùˆ بیان کرنے سے مسلمانوں Ú©ÛŒ صفوں میں اختلاف ھوجائے گا اور مسلمانوں Ú©Û’ درمیان دو گروپ ھوجائیں Ú¯Û’ØŒ لیکن اس Ú©Û’ یہ معنی نھیں ھیں کہ مسلمان ایک دوسرے Ú©Û’ دشمن ھوجائیں اور ایک دوسرے Ú©Ùˆ نیست Ùˆ نابود کرنے Ú©ÛŒ فکر میں Ù„Ú¯ جائیں، بلکہ اپنا مدعا بیان کرنے Ú©Û’ ساتھ ساتھ ایک دوسرے Ú©ÛŒ باتوں Ú©Ùˆ بھی برداشت کرنے کا حوصلہ رکھیں، اور بہترین گفتار Ú©ÛŒ پیروی کرنے Ú©ÛŒ دعوت دیں، لیکن اس حال میں بھی مشترک دشمن سے بھی غافل نہ Ú¾ÙˆÚºÛ”

حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی ھمارے مدعا پر بہترین گواہ ھے، کیونکہ امام حسین علیہ السلام حالانکہ جانتے تھے کہ میرے قیام سے مسلمانوں کے دو گروھوں میں اختلاف ھوگا، لیکن اس صورت میں بھی مسلمانوں کے اتحاد کی وجہ سے امر بالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم اصل سے غافل نھیں ھوئے۔

حضرت امام علی علیہ السلام کی سیرت بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ھے، کیونکہ بعض لوگوں کے نظریہ کے مطابق حضرت علی علیہ السلام طلحہ و زبیر اور معاویہ کو بے جا عہدہ دے کر جنگ جمل و جنگ صفین کو روک سکتے تھے، اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان ھونے والے اختلاف کی روک تھام کرسکتے تھے جس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگوں کو قتل ھونے سے بچاسکتے تھے، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اصول اسلام، حق و حقیقت اور شریعت اسلامی کی حفاظت کے لئے ان حقائق سے چشم پوشی نھیں کی۔

لہٰذا ”وحدت“ کی حقیقت (یا دوسرے لفظوں میں ”اتحاد“) کے معنی یہ ھیں کہ اپنے مسلّم عقائد کو محفوظ رکھتے ھوئے مشترک دشمن کے مقابلہ میں ھم آواز رھیں، اور دشمن سے غفلت نہ برتیں، اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ خالص علمی گفتگو اور تعصب سے خالی بحث سے بھی پرھیز کریں، کیونکہ یہ تمام چیزیں درحقیقت ”شریعت اسلام“ کی حفاظت کے لئے ھیں۔

اسی وجہ سے جب جنگ صفین میں عین جنگ کے عالم میں حضرت علی علیہ السلام سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا اور اس سوال کے بعد کہ اس کارزار کے وقت کیا یہ نماز کا وقت ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا ھم نماز کے علاوہ کسی دوسری چیز کے لئے جنگ کر رھے ھیں؟ لہٰذا کبھی بھی ہدف کو وسیلہ اور ذریعہ پر قربان نہ کیا جائے۔

شیخ محمد عاشور، الازھر یونیورسٹی مصر  Ú©Û’ وائس چانسلرکے سکریٹری اور ”مذاھب اسلامی Ú©Û’ درمیان گفتگو“ کمیٹی Ú©Û’ صدر ایک بہترین اور منطقی گفتگو میں کہتے ھیں: ”اسلامی مذاھب Ú©Û’ درمیان گفتگو Ú©Û’ نظریہ کا مقصد یہ نھیں Ú¾Û’ کہ تمام مذاھب Ú©Ùˆ ایک کردیا جائے یا کسی ایک فرقہ سے دوسرے فرقہ Ú©ÛŒ طرف رغبت دلائی جائے، کیونکہ اگر یہ معنی کئے جائیں تو پھر قربت کا نظریہ بے فائدہ ھوجائے گا۔ قربت کا نظریہ علمی پذیرش اور گفتگو Ú©ÛŒ بنیاد پر ھونا چاہئے تاکہ اس علمی اسلحہ Ú©Û’ ذریعہ خرافات سے جنگ Ú©ÛŒ جاسکے، اور ھر مذھب Ùˆ فرقہ Ú©Û’ علماء اور دانشور اپنی علمی گفتگو میں اپنے علم Ú©Ùˆ دوسروں Ú©Û’ سامنے پیش کریں، تاکہ انسان چین Ùˆ سکون Ú©Û’ ماحول میں حقیقت سے آگاہ ھوجائے اور آسانی سے کسی نتیجہ پر Ù¾Ú¾Ù†Ú† سکے.[1]

ھر مذھب کے ماننے والوں کی مشترک چیزوں پر نگاہ کے ذریعہ عالمی معاشرہ میں زندگی کرنے والے فرقوں میں تعاون اور ھمدردی کا باعث قرار پائے گی، اور اختلافی چیزوں پر ایک علمی اور تحقیقاتی موقع پر نظر کرنے سے حق و حقیقت تک پھنچنے کے لئے گفتگو و تحقیق کا راستہ ھموار ھوجانا ھے۔ چنانچہ ”اھل بیت علیھم السلام کی ولایت سے تمسک“ کے نعرہ کے ساتھ ساتھ ”شھادتین“ کے اقرار کے آثار اور فقھی لوازمات کی نفی نھیں کی جاسکتی، جس طرح ”وحدت اسلامی“ کے عنوان کے تحت یا ”تعصب کے خاتمہ“کے نعرہ کے ذریعہ ایمانی اصول اور اس کے آثار و لوازمات سے چشم پوشی نھیں کی جاسکتی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next