غدیر اور اسلامی وحدت



”جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ھوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نھیں ھے۔“

۵۔ < وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا >[6]

”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رھو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔“

۶۔ <وَلاَتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیحُکُمْ >[7]

”اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑجاوٴ اور تمھاری ھیبت جاتی رھے۔“

۷۔ <إِنَّ ہَذِہِ اٴُمَّتُکُمْ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَاٴَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ>[8]

”بے Ø´Ú© یہ تمھاری امت  ایک پارچہ امت Ú¾Û’ اور میں تم سب کا پروردگار Ú¾ÙˆÚº لہٰذا میری Ú¾ÛŒ عبادت کیا کرو۔“

قرآن میں اسلامی وحدت اور اتحاد کے مسئلہ پر اتنی تاکید کے باوجود اس نکتہ سے غافل نھیں ھونا چاہئے کہ وحدت کے لئے ایک ”محور“ ھونا چاہئے یا دوسرے الفاظ میں وحدت اور اتحاد تک پھنچنے کے لئے ایک راستہ ھونا ضروری ھے۔ لہٰذا وحدت پر زور دینا بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی محور اور راستہ معین ھو، لغو اور بے ھودہ ھے ۔

کبھی بھی ”قرآن صامت“ تن تنھا وحدت کا محور نھیں ھوسکتا، کیونکہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق قرآن میں بہت سی وجوہ موجود ھیں جن میں سے ھر ایک وجہ کو ایک لفظ پر حمل کیا جاسکتا ھے؛ اس وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ قرآن کریم آسمانی کتابوں کو ”امام“ سے تعبیر کرتا ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

<وَمِنْ قَبْلِہِ کِتَابُ مُوسَی إِمَامًا وَرَحْمَةً >[9]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next