غدیر اور اسلامی وحدت



قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ وحدت کے محور کو ”حبل“ (یعنی رسی) سے تعبیر کیا گیا ھے، جس سے روشن ھوجاتا ھے کہ رسی کے دو سِرے ھوتے ھیں جس کے ایک طرف امت اور دوسری طرف خداوندعالم ھے؛ جو زمین و آسمان اور بشر و غیب کے درمیان واسطہ ھے، لہٰذا اس اتحاد و وحدت کے دائرہ کا قطب، عالم غیب اور ملکوت اعلیٰ سے متصل ھونا چاہئے تاکہ عالم شھود عالم غیب سے رابطہ برقرار کرسکے۔ یھاں سے یہ نتیجہ واضح ھوجاتا ھے کہ وحدت و اتحاد کی کشتی، حق و حقیقت کے ساحل پر رکے، نہ کہ ھوا وھوس کے ساحل پر؛ ھماری نظر میں حق و حقیقت پر اتحاد ھونا چاہئے، نہ کہ ھوا و ھوس پر اتفاق۔

اس بنا پر ”حقیقت“ اس واقعیت کو کہتے ھیں جو امت کے کسی اتفاق یا اختلاف سے کوئی تعلق نہ رکھتی ھو، یہ تو امت کی ذمہ داری ھے کہ حقیقت کو تلاش کرے اور سبھی اس سے تمسک کریں، یعنی اس حقیقت کو حاصل کرکے اس پر متحد ھوجائیں، لہٰذا ”حقیقت“ امت کے کسی اتفاق کا نتیجہ نھیں ھے کہ اگر کسی چیز پر متحد ھوجائے تو وھی حق ھوجائے، اور اگر کسی چیز سے منھ موڑ لے تو وہ باطل ھوجائے، جس طرح سے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے بڑی شجاعت کے ساتھ اتحاد کو درھم و برھم کردیا اور یزید کے خلاف قیام کیا، اور فرمایا:

”إنّما خرجت لطلب الاصلاح فی اٴمة جدّی اٴرید اٴن آمر بالمعروف واٴنھی عن المنکر“[13]

”میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رھا ھوں، میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنا چاہتا ھوں۔“

اگر امت کا اتفاق ھی حق و حقیقت کا معیار ھو تو پھر اصلاح کی کوئی ضرورت نھیں ھے، اصلاح، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر اس بات پر مضبوط دلیل ھے کہ حق و حقیقت لوگوں کے جمع ھونے سے حاصل نھیں کی جاسکتی، بلکہ خود لوگوں کو حق و حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے، اور خود کو اس سے مطابقت دینا چاہئے، آیہ شریفہ اعتصام کے ذیل میں بیان ھونے والی روایات کے مطالعہ سے بھی یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ اللہ کی رسی وھی ائمہ معصومین علیھم السلام ھیں جو انسان کو یقینی طور پر خداوندعالم تک پھنچا دیتے ھیں۔

ابن حجر ھیثمی اس (آیہ اعتصام) کو ان آیات کی ردیف میں بیان کرتے ھیں جو اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ھوئی ھیں [14]اسی طرح حدیث ثقلین کو آیہ اعتصام کی تفسیر قرار دیا جاسکتا ھے، کیونکہ اس حدیث میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے مومنین کو حکم دیا ھے کہ ان دونوں گرانقدر گوھروں سے تمسک کرو، جو قرآن و عترت ھیں، تاکہ حق و حقیقت تک پھنچ جائیں اور کبھی گمراہ نہ ھوں۔

ابو جعفر طبری آیہ اعتصام کی تفسیر میں کہتے ھیں:

”اعتصام“ کا مقصد تمسک کرنا ھے، کیونکہ رسی کے ذریعہ انسان اپنے مقصد تک پھنچ سکتا ھے[15]

 Ø§Ø³ Ú©Û’ علاوہ حدیث ثقلین Ú©ÛŒ بعض اسناد میں لفظ ”اعتصام“ استعمال ھوا Ú¾Û’ØŒ نمونہ Ú©Û’ طور پر ابن بی شیبہ، حدیث ثقلین Ú©Ùˆ اس طرح نقل کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ù†Û’ فرمایا:

”انّی ترکت فیکم ما لن تضلّوا بعدی ان اعتصمتم بہ:کتاب الله و عترتی“[16]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next