حضرت مہدی(علیہ السلام) پر ایک تحقیقی جائزہ اور شبھات کا جواب



۳۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی ”آخرزمانہ“ میں زندگی نھیں گذاری ھے جب کہ آخر زمانہ کی آمد امام مہدی(علیہ السلام) کے ظھور کی شرط ھے، اسی طرح ان میں سے کسی کو بھی ھم نھیں پھنچانتے جس نے زمین کے ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد اسے عدل و انصاف سے لبریز کیاھو۔

۴۔ سب سے اھم نکتہ یہ ھے: اگر مذکورہ بالا استدلال صحیح ھو تو عدالت کے نہ ھونے کو قبول کرنا چاہئے؛ کیونکہ تاریخ کے بہتیرے سرکش اور جبار فرعون مصر سے لیکر عصر حاضر کے فرعون تک عدالت اور انصاف کا دعویٰ کرتے آرھے ھیں اور خود کو عادل کہتے ھیں اسی طرح عالموں کو جاھل کھنا چاہئے، کیونکہ بہت سارے جاھل افراد علم و دانش کے دعویدار ھیں۔نیز ھماری نظر میں شجاع اور بھادر، بزدل سخاوتمند بخیل اور جھاں دیدہ اور برد بار ھلکے دماغ والے اور جلد باز کھے جائیں کیونکہ کوئی بھی پسندیدہ خصلت اور فضیلت نھیں پائی جاسکتی، مگر یہ کہ کچھ لوگ اس کا جھوٹا دعوی کرتے ھیں۔

قضیہ ”مہدویت“ میں غور و فکر کرنے سے ھم نتیجہ نکالتے ھیں کہ وہ اھم مسائل میں سے ایک ھے کہ جس نے بہت سارے سیاست بازوں اور ھوا و ھوس کے پجاریوں کو مالیخولیا کے مرض میں مبتلا کردیا ھے۔ اس بنیاد پر فطری بات یہ ھے کہ بعض خود مہدی موعود ھونے کا ادعا کریں یا ان کے ماننے والے اپنے ناپاک اہداف تک رسائی کے لئے ان کی ترویج کریں۔

جس طرح عقلمند انسان دعوی کو حق بجانب سمجھنے کے ساتھ دھوکہ باز، دشمن حق عناصر کے ھوتے ھوئے حق سے انکار نھیں کرتا، اسی طرح مناسب نھیں ھے کہ چند مکار لوگوں کے ادعا اور ”مہدویت“کا جھوٹا دعوی کرنے کی وجہ سے مہدی موعود(علیہ السلام) کے آخرزمانہ میں ظھور کے بارے میں جس کی خدا وند عالم کی گرامی قدر مخلوق پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے تصریح کی ھے، انکار کردیں، اس کے علاوہ علمائے اسلام بہت ساری احادیث المہدی کے صحیح ھو نے کی جو متعدد طریق سے تواتر کی حد کو پھونچی ھے تصریح کرتے ھیں، جیسا کہ ان میں سے بہت سارے افراد نے اس کے متواتر ھونے کو مسلمات کا جز شمار کیا ھے۔

د:  امام مہدی(علیہ السلام) Ú©Û’ طول عمر Ú©Û’ بارے میں عقلانیت Ú©ÛŒ بحث

اس شبہہ کے بے بنیاد ھونے کے بارے میں واضح ھو چکا ھے اور اس کا تنہ ٹوٹ کر خشک ھو چکا ھے اور اس کی شاخیں چھوٹے چھوٹے ایندھن میں تبدیل ھو چکی ھیں، صرف ایک دوسرا شبہہ باقی رہ جاتا ھے جس کا خلاصہ امام مہدی(علیہ السلام) کی عمر کا انسان کی عقل و دانش سے متعارض ھونا ھے۔

یہ شبہہ منکرین ظھور امام مہدی(علیہ السلام) کا اھم ترین دستاویز ھے اور ھم آیندہ فصل میں اس کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ تا کہ روشن ھو جائے کہ خود یہ قول ان کے دعوی کے بر خلاف عقل و دانش سے ساز گار نھیں ھے اور ھماری تاکید اس بحث میں اس نکتہ پر ھوگی کہ عقل کی حدیں صاف و شفاف اور ھواو ھوس نیز خواہشات اور انفرادی جہت گیری سے الگ تھلگ ایک مستقل چیز ھے۔اور وسیع و مقبول عام احکام کی حامل ھے عقل کسی اور سے وا بستہ نھیں ھے۔

اس کے علاوہ جن کا واقع ھونا محال ھے ان کے درمیان جو اپنی حدیں کسی شرائط کے تحت، حتی انبیاء اور اوصیاء کے ذریعہ بھی تحقق کا امکان نھیں رکھتا، (جیسے اجتماع نقیضین) اور ممکن الوقوع واقعہ کے دمیان جو کہ عادی شرائط کے تحت رونما نھیں ھوا ھے بڑا فرق پایاجاتا ھے۔ محال عقلی تحقق پانے یا نہ پانے کے اعتبار سے، محال عادی کے مانند نھیں ھے، لیکن ان افراد نے ان دونوں کے درمیان خلط ملط کرڈالا ھے اور اس نتیجہ تک پھونچے ھیں کہ جو حادثہ عام شرائط کے تحت رونما نھیں ھوتا، یقینی طور پر عقلاً محال ھے؛ جب کہ یہ بہت بڑی بھول اور ناقابل عفو چیز ھے ان دونوں مذکورہ مفھوم کے درمیان اور ان کے آثار و لوازم کے درمیان ناقابل انفکاک امر ھے۔

آئندہ فصل میں برھان و دلیل سے استناد کرتے ھوئے ھم ثابت کریں گے کہ ان کی خام خیال یکساں طور پر منطق عقل اور علم میں محکوم اور مردود ھے۔

تیسری فصل کے تعلیقے



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 next