علامات شيعه از نظر معصومين عليهم السلام



احنف! اگر تم رات کے وقت جب وہ عبادت میں کھڑے ہوں‘ انہیں دیکھ سکو تو تم یہ دیکھو گے کہ ان کی پشت (رکوع میں) خم ہوگی اور اپنی نماز میں قرآن کے اجزاء کی تلاوت میں وہ تمہیں مصروف دکھائی دیں گے اور اس عالم میں ان کے گریہ و فریاد اور نالوں کی آوازیں بلند ہوں گی اور جب وہ سانس لیں گے تو تم یہ سمجھو گے کہ آگ نے ان کے حلق کو پکڑ رکھا ہے اور جب ان کی صدائے گریہ بلند ہوتی ہے تو تم اس کے متعلق یہ تصور کرو گے کہ ان کی گردنیں سختی کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔

اور جب تم انہیں دن میں دیکھو گے تو تمہیں وہ پروقار طریقہ سے زمین پر چلتے ہوئے دکھائی دیں گے اور لوگوں سے اچھی گفتگو کر رہے ہوں گے۔ اور جب جاہل انہیں خطاب و عتاب کرتے ہیں تو وہ نرمی و مدارات سے انہیں جواب دیتے ہیں اور جب ان کا گزر کسی لغو اور بے فائدہ چیز کے پاس سے ہوتا ہے تو وہ شریفانہ انداز سے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے قدموں کو تہمت (کے مقامات) سے روکا ہوا ہے۔ اور لوگوں کی آبروریزی سے انہوں نے اپنی زبانوں کوگونگا بنا لیاہے اور ہر بات کرنے والا جب اپنی بات کو ان کے کانوں میں گھسیڑنا چاہے تو انہوں نے اپنے کانوں کو بہرا بنا لیا ہے اور انہوں نے اپنی آنکھوں کو گناہوں سے چشم پوشی کا سرمہ لگایا ہوا ہے اور انہوں نے سلامتی کی اس سرائے کا قصد کیا ہوا ہے کہ جو اس میں داخل ہو جائے اسے شک و اندوہ سے نجات مل جاتی ہے۔

احنف! معلوم ہوتا ہے تمہاری نظر اس داردنیا میں ہی ٹک گئی ہے اور تم نے اس دنیا کو دیکھا ہی نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سفید موتی سے پیدا کیا ہے اور اس میں اس نے نہریں جاری کی ہیں اور جوان حوروں سے اسے پُر کیا ہے اور اپنے دوستوں اور اطاعت گزاروں کو اسی میں رہایش دی ہے۔

احنف! کاش تمہیں بھی چشم تصور سے وہ منظر دکھائی دیتاجب اہلِ اطاعت اپنے پروردگار کی وسیع نعمات پر وارد ہوں گے جب وہ جانے کا ارادہ کریں گے تو اس وقت ان کی سواریاں ایسی آوازیں نکالیں گی کہ اس سے بہتر آواز کسی سننے والوں نے کبھی سنی تک نہ ہوگی۔ اس وقت ایک بادل ان پر سایہ کرے گا اور وہ ان پر مشک و زعفران کی بارش برسائے گا۔ ان کے گھوڑے ان باغات کے پودوں میں ہنہنائیں گے اور ان کی جنتی اُونٹنیاں انہیں زعفران کے ٹیلوں سے لے کر گزر رہی ہوں گی اور وہ درو مرجان ان کے پاؤں میں پامال ہو رہے ہوں گے۔ اور جنت کے خدام گلوں کے بڑے بڑے دستے بنا کر ان کا استقبال کر رہے ہوں گے اور عرش کی جانب سے نسیم ملائم چلے گی اور وہ ان پر یاسمین اور بابونہ کے گلوں کو نچھاور کرے گی اور وہ دروازہ جنت پر جائیں گے تو رضوان ان کے لیے دروازہ کھولے گا پھر وہ دربہشت کے آستانہ پر خدا کے لیے سجدہ کریں گے۔ اس وقت خدائے جبار ان سے فرمائے گا:

اپنے سروں کو بلند کرو۔ میں نے عبادت کی زحمت تم سے اٹھا لی ہے اور میں نے تمہیں جنت رضوان میں رہائش دی ہے۔

احنف! یاد رکھو اگر تم نے میری مذکورہ گفتگو کو جو میں نے ابتدا میں تم سے کی ہے‘ بھلا دیا تو تمہیں قطران کے پیراہن پہنا دیے جائیں گے۔ (قطران‘ اس سیاہ اور بدبودار پیپ کو کہا جاتا ہے جو خارشتی اونٹوں کے جسم سے نکلتی ہے)

تجھے دوزخ کے طبقات اور دوزخ کے گرم پانی کے درمیان چکر لگانا پڑیں گے اور تجھے انتہائی سخت گرم پانی پلایا جائے گا۔

ہائے اس دن دوزخ میں بہت سی ٹوٹی ہوئی پشتیں اور تباہ چہرے ہوں گے اور جلنے کی وجہ سے انتہائی بدصورت چہرے وہاں موجود ہوں گے اورحالت یہ ہوگی کہ طوق و سلاسل ان کی مٹھیوں کو کھا چکے ہوں گے اور آتشیں طوق ان کی گردنوں سے پیوست ہوں گے۔

احنف! کاش تم دیکھ سکتے کہ وہ دوزخ کی وادیوں میں کیسے گر رہے ہوں گے اور آتشیں پہاڑوں پر کیسے چڑھ رہے ہوں گے اور انہیں قطران کا لباس پہنایا جا چکا ہوگا۔ اور انہیں بدکاروں اور شیاطین کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں باندھا گیا ہوگا اور جب وہ دہکتی ہوئی آگ سے بچنے کے لیے بری طرح سے فریاد کریں گے تو ان پر دوزخ کے بچھو اور سانپ حملہ کر دیں گے۔

کاش! تم یہ آواز بھی سنتے جب منادی ندا دے کر کہے گا:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 next