مذموم دنیا اور ممدوح دنیا



۳۔اسکے دل کو اسکا دلدادہ بنا دونگا

جرم اور سزا کے درمیان تبادلہ

”اور اسکے دل کو دنیا سے وابستہ کردوں گا“ یہ ان لوگوں کی تیسری سزا ھے جو خدا سے منھ موڑ کر اپنی خواھشات کی جانب دوڑتے ھیں یھاں سزا اور جرم ایک ھی طرح کے ھیں ۔اور جب جرم وسزا کی نوعیت ایک ھوتی ھے تو وہ کوئی قانونی سزا نھیں بلکہ”تکوینی“سزا ھوتی ھے اور تکوینی سزا زیادہ منصفانہ ھوتی ھے اور اس سے بچنے کا امکان بھی نھیں ھوتا ۔ جرم یہ ھے کہ انسان خدا کو چھوڑکر خواھشات سے دل لگارھاھے اور سزا بھی ایسی ھی ھے یعنی خدا بندہ کو دنیا میں ھی مشغول کردیتا ھے ”واشغلت قلبہ بھا “

اس طرح جرم و سزا میںدو طرفہ رابطہ ھے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ھوتے ھیں خدا کو چھوڑکر”خواھشات میں الجھنے“کی سزا ”دنیا میں الجھنا “ھے اس سزا سے جرم میں مزید اضافہ ھوتا رہتا ھے اور جرم میں اضافہ ،مزید سزا کا مطالبہ کرتا ھے اور یہ سلسلہ یونھی چلتا رہتا ھے اس طرح نہ صرف یہ کہ سزا وھی ملتی ھے جو جرم کیا ھے بلکہ خود سزا جرم کو بڑھاتی ھے اور اسے شدید کردیتی ھے نتیجتاً انسان کچھ اورشدید سزا کا مستحق ھوجاتا ھے ۔

انسان جب پھلی مرتبہ جرم کا مرتکب ھوتا ھے تو اس وقت اسکے پاس گناھوں سے اجتناب اور سقو ط وانحراف سے بچانے والی خدا داد قوت مدافعت کا مکمل اختیارھوتا ھے لیکن جب گناھوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ھے اور انسان اپنے نفس کو نھیں روکتا تو خدا بھی سزا کے طورپراسے اسی جرم کے حوالہ کردیتا ھے اوراس سے گناھوں سے اجتناب کرنے اور نفس پر تسلط قائم رکھنے کی فطری اور خدا داد صلاحیت کوسلب کرلیتا ھے ۔

اور سزا کا درجہ جتنا بڑھتا جاتا ھے انسان اتنا ھی جرم کے دلدل میں پھنستا رہتا ھے ،اپنے نفس پر اسکی گرفت کمزور ھوتی رہتی ھے اور گناھوں سے پرھیز کی صلاحیت دم توڑتی جاتی ھے یھاں تک کہ خداوند عالم اس سے گناھوں سے اجتناب کی فطری صلاحیت اور نفس پر تسلط و اختیار کو مکمل طریقہ سے سلب کرلیتا ھے ۔

اس مقام پر یہ تصور ذھن میں نھیں آنا چاہئیے کہ جب مجرم کے پاس نفس پر تسلط اور گناھوں سے اجتناب کی صلاحیت بالکل ختم ھوگئی اور گویا اسکا اختیار ھی ختم ھوگیا تو اب سزا کیسی ؟یہ خیال ناروا ھے اس لئے کہ ابتداء میں مجرم نے جب جرم کا ارتکاب کیا تھا اس وقت تواسکے پاس یہ صلاحیت اور نفس کے اوپر تسلط بھرپور طریقہ سے موجودتھا اور وہ مکمل اختیار کا مالک تھا جو شخص اپنے ھاتھوں دولت اختیار ضائع کردے اسے بے اختیار نھیں کھاجاتا جیسے بلندی سے کود نے والا گرنے کے بعد یقینابے اختیار ھوجاتا ھے لیکن اگر کوئی شخص خود جان بوجھ کربلندی سے چھلانگ لگائے تو اسکے بارے میں یہ نھیں کھا جاسکتا کہ یہ بے اختیار ھے اوراسکے پاس بچنے کی صلاحیت ھی نھیں تھی۔

دنیاداری کے دورخ یہ بھی!

جب انسان دنیا داری میں مشغول ھوجاتا ھے تو اس کا پھلا اثر اور ایک رخ یہ ھوتا ھے کہ انسان کا سارا ھم وغم اسکی دنیا ھی ھوتی ھے اور یہ کیفیت ایک خطرناک بیماری کی شکل اختیار کرکے قلب انسانی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ھے ۔

پیغمبر اکرم  (صلی الله علیه Ùˆ آله وسلم ) سے ایک دعا میں منقول Ú¾Û’ :

<اللّھم اٴقسم لنامن خشیتک مایحول بیننا وبین معاصیک،ولاتجعل الدنیا اٴکبرھمنا،ولامبلغ علمنا>[27]

”پروردگارا! ھمیںوہ خوف وخشیت عطا فرما جو ھمارے اور گناھوں کے درمیان حائل ھوجائے اور ھمارے لئے دنیا کو سب سے بڑا ھم وغم اور ھمارے علم کی انتھا قرار مت دینا “

اگرانسان دنیاوی معاملات کو اھمیت دے تواس میں کوئی قباحت نھیں لیکن دنیا کو اپنا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next