مذموم دنیا اور ممدوح دنیا



امیر المومنین حضرت علی  (علیه السلام)  Ú©Ø§ ارشاد Ú¾Û’:

<اٴلا وان الدنیادار لا یُسلَم منھا الا فیھا،ولاینجیٰ بشی ء کان لھا،ابتلی الناس بھا فتنة،فما اٴخذوہ منھا لھااُخرجوا منہ وحوسبوا علیہ،وما اٴخذوہ منھالغیرھا قدمواعلیہ واٴقاموا فیہ>[18]

 â€Ø¢Ú¯Ø§Û Ú¾Ùˆ جا ؤ کہ یہ دنیا ایسا گھرھے جس سے سلامتی کا سامان اسی Ú©Û’ اندر سے کیا جاسکتا Ú¾Û’ اور Ú©Ùˆ ئی ایسی شئے وسیلہٴ نجات نھیں Ú¾Ùˆ سکتی Ú¾Û’ جو دنیا Ú¾ÛŒ Ú©Û’ لئے Ú¾Ùˆ ۔لوگ اس دنیا Ú©Û’ ذریعہ آزمائے جاتے ھیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا Ú¾ÛŒ کےلئے حاصل کرتے ھیں وہ اسے چھوڑکر Ú†Ù„Û’ جاتے ھیں اور پھر حساب بھی دینا ھوتا Ú¾Û’ اور جولوگ یھاں سے وھاںکےلئے حاصل کرتے ھیں وہ وھاں جاکر پالیتے ھیں اور اسی میں مقیم ھوجاتے Ú¾Û’ یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل Ú©ÛŒ نظر میں ایک سایہ جیسی Ú¾Û’ جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا Ú¾Û’ اور پھیلتے پھیلتے Ú©Ù… ھوجاتا Ú¾Û’ “

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ھیں <دارلایسلم منھا اِلا فیھا>اس فقرہ سے معلوم ھوتا ھے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ھے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نھیں ھے عجیب وغریب بات ھے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نھیں پھونچ سکتا بلکہ الله یہ چاہتا ھے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سھارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پھلی حقیقت تو یہ آشکار ھوئی ھے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ھے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نھیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رھے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا Ú©Ùˆ وسیلہ Ú©Û’ بجائے ھدف  اور مقصد بنالے گا تو ھرگز نجات حاصل نھیں کرسکتا <ولاینجی لشی کان لھا> اس طرح اگر انسان Ù†Û’ دنیا کواس Ú©ÛŒ اصل حیثیت ”واسطہ ووسیلہ“سے الگ کردیا اور اسی Ú©Ùˆ ھدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پھنچانے Ú©ÛŒ صلاحیت Ú©Ú¾Ùˆ بیٹھتی Ú¾Û’ یہ دوسری حقیقت Ú¾Û’ جوان کلمات میں موجود Ú¾Û’ Û”

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰھی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ھے تو یھی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ھے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ھے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ھے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ھے اور اس کے لئے باقی رہتی ھے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ھے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ الله سے غافل کرتی ھے ۔خدا سے دور کردیتی ھے موت کے بعدانسان سے جدا ھوجاتی ھے اور بارگاہ الٰھی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاھے ۔

یہ بھی پیش نظر رھے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نھیں ھے بلکہ کیفیت کا ھے اور عین ممکن ھے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ھو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ھو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ھو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ”عمل صالح“شمار ھوگی اس کے برخلاف ھوسکتا ھے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاھی انسان کے پاس ھوں لیکن اسکا مقصد خود وھی دنیا ھو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ھے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یھی دنیا انسان Ú©Û’ مد نظر ھوتو اسکی حیثیت ”عاجل“”نقد“کی سی Ú¾Û’ جو کہ اسی دنیا تک محدود Ú¾Û’ اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ھوگابلکہ زائل Ú¾Ùˆ کر جلد ختم ھوجائے Ú¯ÛŒ لیکن اگر دنیا Ú©Ùˆ دوسرے (آخرت )Ú©Û’ لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت”آجل“”ادھار“کی سی Ú¾ÙˆÚ¯ÛŒ کہ جب انسان حضور پروردگار میں پھونچے گا تو وھاںدنیا Ú©Ùˆ حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ھونے والی نھیں بلکہ باقی رھے گی”وماعندالله خیر واٴبقی“امیر المومنین(علیه السلام)   Ú©Û’ اس فقرہ”ومااٴخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ واٴقاموا فیہ“ سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ھوتا Ú¾Û’ Û”

زیارت امام حسین  (علیه السلام)  Ø³Û’ متعلق دعا میں نقل ھوا Ú¾Û’:

<ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلھینی عجائب بھجتھا،وتفتننی زھرات زینتھا،ولا بإقلالٍ یضرّ بعملی،ویملاٴ صدری ھمّہ>[19]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next