مذموم دنیا اور ممدوح دنیا



سب کچھ قرار دینااور اسکو اپنے قلب کا حاکم اور زندگی کا مالک تسلیم کرلینا غلط ھے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنے اشاروں پر انسان کو نچاتی ھے اور ظاھر ھے کہ یہ صورت حال قلب کے لئے بیمار ی کا درجہ رکھتی ھے ۔

امیر المومنین حضرت علی(علیه السلام)  Ù†Û’ اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ (علیه السلام)  Ú©Û’ نا Ù… اپنی وصیت میں فرمایاھے :

<ولا تکن الدنیا اٴکبرھمک>[28]

 â€Ø¯Ù†ÛŒØ§ تمھارا سب سے بڑا Ú¾Ù… وغم نہ ھونے پائے “

دنیا داری میں مشغول ھونے کامنفی رخ یہ ھے کہ خدا سے انسان کا تعلق ختم ھوجاتا ھے ۔ معاملات دنیا میں کھوجانے کا مطلب خدا سے قطع تعلق کرلینا ھے اورفطری بات ھے کہ جب انسان کا ھم وغم اسکی دنیا ھوگئی تو پھر انسان کے ھر اقدام کا مقصد دنیا ھوگی نہ کہ رضائے الٰھی ،اس طرح انسانی قلب پر دنیا کے دریچے جس مقدار میں کھلتے جائیں گے اسی مقدار میں الٰھی دریچے بند ھوتے جائیں گے لہٰذا اگر انسان کی نگاہ میںدنیاوی کاموں کی سب سے زیادہ اھمیت ھوگی تو خدا کی جانب تو جہ کمترین درجہ تک پھونچ جائے گی ۔اور جب سب ھم وغم اور فکر وخیال دنیا کے لئے ھوجائے گا تو یہ کیفیت در حقیقت گذشتہ صورت حال کا نتیجہ اور قلب انسانی کی بدترین بیماری ھے ۔

قرآن کریم نے اس خطرناک بیماری کو متعدد مقامات پر مختلف عناوین کے ذریعہ بیان کیا ھے ۔ھم یھاں پر آیات قرآن کے ذیل میں چند عناوین کا تذکرہ کررھے ھیں :دل کے اوپر خدائی راستوں کی بندش کے بعض نمونے

۱۔غبار اور زنگ

<کلا بل ران علیٰ قلوبھم  ماکانوا یکسبون >[29]

”نھیں نھیں بلکہ انکے دلو ں پر انکے (برے )اعمال کا زنگ لگ گیا ھے “

راغب اصفھانی نے اس آیت کی تفسیر میں کھا ھے کہ اس سے مراد یہ ھے کہ ”ان کے دلوں کی چمک دمک زنگ آلودھوگئی لہٰذا وہ خیروشرکی پہچان کرنے سے بھی معذورھوگئے ھیں۔

۲۔الٹ،پلٹ

یہ ایک طرح کا عذاب Ú¾Û’ جس میں خدا، غافل دلوں Ú©Ùˆ اپنی یاد سے دور کردیتا Ú¾Û’ جیسا کہ  اللهتعالی کا ارشاد Ú¾Û’ :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next