سفر امام حسین علیه السلام کی منزلیں



امام حسین علیہ السلام  :” بلیٰ والذی الیہ مرجع العباد ! “کیوں نھیں ( Ú¾Ù… Ú¾ÛŒ حق پر ھیں) قسم Ú¾Û’ اس ذات Ú©ÛŒ جس Ú©ÛŒ طرف سب Ú©Ùˆ پلٹنا Ú¾Û’Û”

علی بن الحسین (علیہ السلام) : ”یااٴبت اذاًلا نبالی ، نموت محقین“بابا جان ایسی صورت میںھمیں کوئی پرواہ نھیں ھے کیوں کہ ھماری موت حق پر ھے ۔

امام حسین (علیہ السلام) :  جزاک اللّٰہ من ولد خیر ماجزی ولداً عن والدہ ØŒ خداوند متعال تمھیں وہ بھترین جزا دے جو باپ Ú©ÛŒ دعا سے بےٹے Ú©Ùˆ نصیب ھوتی Ú¾Û’ Û”

اسی گفتگو کے درمیان کچھ دیر کے بعد سپیدہ سحری نمودار ھوئی ۔ آپ نے صبح کی نماز ادا کی اور دوبارہ جلدی سے سب اپنی اپنی سواریوں پر بےٹھ گئے اورآپ اپنے اصحاب کو اس سر زمین کے بائیں جانب چلنے کا اشارہ کیا تاکہ انھیں لشکر حر سے جدا اور متفرق کر سکیںلیکن حر بن یزید کی جستجو یہ تھی کہ آپ کوکسی طرح کوفہ سے نزدیک کردے لہٰذا وہ آپ لوگوں کو پراکندہ ھونے سے روک کر واپس پلٹانے لگا اور کوفہ کی طرف شدت سے نزدیک کرنے لگا،اصحاب حسینی نے اس سے ممانعت کی اوران لوگوں کو دور ھٹاتے رھے اور آپ اسی طرح اپنے چاھنے والوں کو بائیں طرف کرتے رھے اور اسی کشمکش میں نینوا آگیا ۔

 

قربان گاہ عشق :نینوا[66]

چودہ منزلیں ختم Ú¾ÙˆÚ†Ú©ÛŒ تھیںحسین بن علی (علیھما السلام ) نینوامیں اترچکے تھے کہ یکایک ایک سوار اصیل Ùˆ نجیب Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ پر سوار ØŒ اسلحوں سے لیث اور دوش پر کمان ڈالے کوفہ Ú©ÛŒ طرف سے نمودار ھوا سب Ú©Û’ سب Ú©Ú¾Ú‘Û’ اس کاانتظار کرنے Ù„Ú¯Û’Ø› جب وہ نزدیک آیا تو اس Ù†Û’ حر اور اس Ú©Û’ لشکر والوں Ú©Ùˆ سلام کیا لیکن حسین (علیہ السلام)  اور ان Ú©Û’ اصحاب Ú©Ùˆ سلام نھیں کیا پھر اس Ù†Û’ عبیداللہ بن زیا دکا خط حر Ú©Ùˆ پیش کردیا اس خط میں یہ عبارت موجود تھی Û”

  اما بعد، فجعجع [67]بالحسین حین یبلغک کتابي ویقدم علیک رسولي ØŒ فلا تنزلہ الا بالعراء فی غیر حصن وعلی غیر ما Ø¡ Ùˆ قد امرت رسولي اٴن یلزمک ولا یفارقک حتی یاتیني باٴنفاذک امري، والسلام “

اما بعد، جیسے Ú¾ÛŒ نامہ برتمھارے پاس یہ خط Ù„Û’ کر میرا Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ حسین Ú©Ùˆ ایک بے آب Ùˆ گیاہ صحرا میں روک لو اور میں Ù†Û’ اپنے فرستادہ Ú©Ùˆ Ø­Ú©Ù… دیا Ú¾Û’ کہ وہ تم سے جدا نہ Ú¾Ùˆ اور تمھاری مراقبت میں رھے یھاں تک کہ واپس لوٹ کر مجھے خبر دے Ú©Û’ تم Ù†Û’ میرے Ø­Ú©Ù… Ú©Ùˆ نافذ کیا Ú¾Û’Û” والسلام 

جب حر نے خط پڑھا تو یہ خط لے کر وہ اس نورانی قافلہ کے پاس آیا اور کھنے لگا : یہ امیر عبیداللہ بن زیاد کا خط ھے جس میں اس نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں آپ کو وھیں پر قید رکھوں جھاں پر اس کا خط مجھے ملا ھے اور یہ اس کا قاصداور فرستادہ ھے جسے اس نے حکم دیا ھے کہ وہ مجھ سے جدا نہ ھو یھاں تک کہ میں اس کے منشاء اور حکم کو نافذ کردوں۔

یہ سن کر یزید بن زیاد مھاصر کندی بھدلی [68]معروف بہ شعثاء Ù†Û’ عبیداللہ بن زیاد Ú©Û’ پیغام رساں Ú©Ùˆ غورسے دیکھااور اس Ú©Û’ سا منے خود کونمایاں کر Ú©Û’ کھا : کیا تو مالک بنُ نسیر بدّی[69] Ú¾Û’ !( جس کاتعلق قبیلہٴ کندہ سے Ú¾Û’ ) ØŸ اس شخص Ù†Û’ جواب دیا : ھاں ! اس پر  یزید بن زیا د معروف بہ شعثاء Ù†Û’ اس سے کھا : تیری ماں تیرے غم میںبیٹھے ! یہ تو کیا Ù„Û’ کر آیا Ú¾Û’ ØŸ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next