سفر امام حسین علیه السلام کی منزلیں



 Ø´Ú¾Ø§Ø¯Øª Ú©Û’ بعد مالک بن نسیر آپ Ú©ÛŒ برنس Ù„Û’ کر چلا گیا تو اس کا اثر یہ ھوا کہ ساری زندگی فقیر رھا یھاں تک کہ مرگیا Û”(طبری ،ج۵ ،ص Û´Û´Û¸) یہ واقعہ ابی مخنف سے مروی Ú¾Û’Û” ” برنس “ عربی کا ایک غیر مانوس کلمہ Ú¾Û’Û” یہ ایک لمبی ٹوپی Ú¾Û’ جو روئی سے بنتی Ú¾Û’ اسے نصاریٰ Ú©Û’ عبادت گزار افراد پھنا کرتے تھے۔ صد ر اسلام میںمسلمان عبادت گزار افراد بھی اسے پھنا کرتے تھے جیسا کہ مجمع البحرین میں  Ú¾Û’ نیز ابو مخنف Ù†Û’ روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ عبد اللہ بن دبّا س Ù†Û’ مختار Ú©Ùˆ ان لوگوں کا پتہ بتا یا جنھوں Ù†Û’ امام حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ قتل کیا تھا۔انھیں میں سے ایک مالک بن نسیر َبدّی بھی تھا۔ مختار Ù†Û’ فوراً ان قاتلوں Ú©ÛŒ سمت مالک بن عمرو نھدی Ú©Ùˆ بھیجا ۔جب مالک بن عمر ووھاں آئے اور وہ سب Ú©Û’ سب قادسیہ میں موجود تھے مالک بن عمرونے ان سب Ú©Ùˆ گرفتار کرلیا اور ان Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر مختار Ú©Û’ پاس آئے۔ جب یہ قاتلین وھاں Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ تو رات Ú¾Ùˆ Ú†Ú©ÛŒ تھی۔ مختار Ù†Û’ اس بدّی سے پوچھا: تو Ú¾ÛŒ وہ Ú¾Û’ جو امام Ú©ÛŒ برنس Ù„Û’ گیا تھا ØŸ تو   عبد اللہ بن کامل Ù†Û’ کھا : ھاںیہ ÙˆÚ¾ÛŒ Ú¾Û’ Û” یہ سن کر مختار Ù†Û’ کھا : اس Ú©Û’ دونوں ھاتھ پیر کاٹ دو اور Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دو تاکہ یہ تڑپے اور مضطرب Ú¾Ùˆ یھاں تک کہ مرجائے۔ اس Ú©Û’ ساتھ ایسا Ú¾ÛŒ کیا گیا اور اسے Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا گیا تو اس کا خون مسلسل بھتا رھا یھاں تک کہ وہ مرگیا ۔یہ  Û¶Û¶Ú¾ کا زمانہ تھا۔ (طبری، ج۶، ص ÛµÛ·)

مالک بن نسیرنے کھا : میں کچھ بھی لے کر نھیں آیا،میں نے توفقط اپنے امام کی اطاعت اور اپنی بیعت پر وفاداری کا ثبوت پیش کیا ھے ۔

شعثاء نے اس کا جواب دیا : تو نے اپنے رب کی معصیت اور اپنے نفس کی ھلا کت میں اپنے رھبر کی اطاعت کی ھے اور یہ فعل انجام دے کر تو نے ذلت ورسوائی اور جھنم کی آگ کو حاصل کیا ھے کیو نکہ خدا وند متعال فرماتا ھے:” وَ جَعَلْنَاھْمْ اَ ئِمَّةً یدعْوْنَ اِلیَ النَّارِ وَےَوْمَ القِیامَةِ لَاینصَرْوْنَ“[70]

ھم نے ان کو گمراھوں کا پیشوا بنایاجو لوگو ں کو جھنم کی طرف بلا تے ھیں اور قیامت کے دن (ایسے بے کس ھوں گے کہ ) ان کو ( کسی طرح ) کی مدد نہ دی جائے گی۔ اور وہ تیرا پیشوا ھے ۔

اس کے بعد حر بن یزید ریاحی حسینی قافلہ کو ایسی ھی جگہ پرا تارنے کی کوشش کرنے لگاجھاں نہ پانی تھا اور نہ ھی کوئی قریہ و دیھات [71]لہذا ان لوگوں نے فرمایا کہ ھمیں چھوڑ دو تاکہ ھم اس قریہ میں چلے جائیں جسے نینوا کھتے ھیں یا اس دیھات میں چلے جائیں جسے غاضر یہ [72]کھتے ھیںیاایک دوسرے قریہ میں جانے دو جسے شفیہ کھتے ھیں[73]لیکن حرنے تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ھوئے کھا : نھیں خدا کی قسم میں ایسا کرنے پر قادر نھیں ھوں ، یہ شخص میرے پاس جاسوس بناکر بھیجا گیا ھے ۔

 Ø§Ø³ بے ادبی پرزھیر بن قین ØŒ امام علیہ السلام سے مخاطب Ú¾Ùˆ کر Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ :”یابن رسول اللّٰہ،  ان قتال ھولاء اٴھون من قتال Ù…ÙŽÙ† یاتینا من بعدھم ØŒ فلعمری لیاتینا من بعد من تری مالا قبل لنا بہ“ اے فرزند رسولخدا ! ان لوگوں سے ابھی جنگ آسان Ú¾ÙˆÚ¯ÛŒ بہ نسبت اُن لوگوں Ú©Û’ جو اِن Ú©Û’ بعد آئیں Ú¯Û’Û” قسم Ú¾Û’ مجھے اپنی جان Ú©ÛŒ اس Ú©Û’ بعدھماری طرف اتنے لوگ آئیں Ú¯Û’ جن کا اس سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú¾Ù… سے کوئی سابقہ نہ ھواھو گا ۔زھیر Ú©Û’ یہ جملے سن کر امام علیہ السلام Ù†Û’ ا Ù† سے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جوان Ú©Û’ سابقہ بزرگوں Ú©ÛŒ سیرت کا بیان گر Ú¾Û’Û” آپ Ù†Û’ فرمایا : ”ماکنت لٴابداٴ Ú¾Ù…  با لقتال“  میں ان سے جنگ Ú©ÛŒ ابتداء کرنا نھیں چاھتا اس پر زھیر بن قین Ù†Û’ کھا : تو پھر اس Ú©ÛŒ اجازت فرمائےے کہ Ú¾Ù… اس قریہ Ú©ÛŒ طرف چلیں اور وھاں Ù¾Ú¾Ù†Ú† کر پڑاوٴ ڈالیں کیونکہ یہ قریہ سرسبزو شاداب Ú¾Û’ اور دریائے فرات Ú©Û’ کنارے Ú¾Û’Û” اگران لوگوں Ù†Û’ ھمیں روکا تو Ú¾Ù… ان سے نبرد آزمائی کریں Ú¯Û’ کیونکہ ان سے نبرد آزماھونا آسان Ú¾Û’ بہ نسبت ان لوگوں Ú©Û’ جو ان Ú©Û’ بعد آئیں Ú¯Û’Û” اس پر امام علیہ السلام Ù†Û’ پوچھا :”واٴےة قرےة Ú¾ÛŒ ØŸ “یہ کون سا قریہ Ú¾Û’ ØŸ زھیر Ù†Û’ کھا : ”ھی العقر“اس کانام عقر Ú¾Û’ [74]تو  امام علیہ السلام Ù†Û’ ان سے فرمایا:”اللّٰھم انی اٴعوذبک من العقر“ خدا یا !میں عقر سے تیری پناہ مانگتاھوں، پھر آپ Ù†Û’ وھیں اپنے قافلہ Ú©Ùˆ اتارا۔ یہ جمعرات دوسری محرم  Û¶Û± Ú¾ کا واقعہ Ú¾Û’ جب دوسرا دن نمودار ھواتو سعد بن ابی وقاص [75]کا بیٹاعمر کوفہ سے چار ہزار فوج Ù„Û’ کر کربلا Ù¾Ú¾Ù†Ú† گیا Û”

 



[1] یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ Ú¾Û’ جیساکی معجم البلدان ج۲،ص۴۱۶پر مرقوم Ú¾Û’ Û” مکہ Ú©Û’ داھنی جانب ایک پھاڑھے جسے تنعیم کھتے ھیںاور شمالی حصہ میں ایک دوسراپھاڑھے جسے ”ناعم “کھتے ھیںاو راس وادی Ú©Ùˆ ”نعیمان“کھتے ھیں۔وھاںپر ایک مسجد موجود Ú¾Û’ جو  قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باھر آنے Ú©ÛŒ جگہ Ú¾Û’ آج Ú©Ù„ یہ جگہ مکہ Ú©Û’ مرکزی علاقہ سے Û¶/ کیلو مےٹر Ú©Û’ فاصلہ پر Ú¾Û’ جس کا مطلب یہ Ú¾Ùˆ ا کہ ایک فرسخ Ú¾Û’ نہ کہ دو فرسخ Û” اس وقت شھر سے Ù„Û’ کر یھاں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ Ú¾Û’  جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاھتا Ú¾Û’ اسے ادھر Ú¾ÛŒ سے Ú¾Ùˆ کر گذرنا پڑتا Ú¾Û’Û”

[2] گویایہ ÙˆÚ¾ÛŒ شخص Ú¾Û’ جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس Ù†Û’ عبداللہ بن مطیع Ú©Ùˆ بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔( طبری ،ج۶، ص Û¹) طاووٴ س یمانی جو بھت معروف ھیں اس شخص Ú©Û’ آقا تھے۔طاووٴ س یمانی Ù†Û’ مکہ میں Û±Û°ÛµÚ¾  میں وفات پائی۔( طبری، ج۶، ص۲۹)

[3] الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ھے جو تل کی طرح ھوتی ھے اور رنگ ریزی کے کام آتی ھے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ھے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کھیں بھی نھیں ملتی ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next