سفر امام حسین علیه السلام کی منزلیں



[12] ابو مخنف کا بیان ھے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ھے۔( طبری ،ج۵،ص۳۹۴)

[13] حاجرنجد کی بلند وادی کو کھتے ھیں۔

[14] بطن رمہ وہ جگہ ھے جھاں اھل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ھوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ۴،ص ۲۹۰،اور تاج العروس، ج ۳،ص۱۳۹پر مرقوم ھے۔

[15] کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ھے۔

[16] امام Ú©Û’ عمل سے نہ تو اسلام Ú©ÛŒ بے حرمتی ھوئی نہ Ú¾ÛŒ رسول خدا ØŒ عرب اور قریش Ú©ÛŒ ھتک حرمت ھوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر Ú©ÛŒ      کا رستا نیوں سے یہ سب Ú©Ú†Ú¾ ھوا ۔ابن مطیع Ù†Û’ اپنے اس جملہ میں خطا Ú©ÛŒ Ú¾Û’ جو یہ کہہ دیا کہ ولئن قتلوک لا یھا بون بعد Ú© احداابدا Û” کیونکہ امام علیہ السلام Ú©Û’ بعد ان لوگوں Ú©Ùˆ جراٴ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ اپنے ھاتھوں میںچوڑیاں Ù¾Ú¾Ù†Û’ بےٹھے تھے انھیں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی Ú¾Û’ جو ابن زبیر Ú©Û’ زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ قیام نہ کیا ھوتا تو بنی امیہ Ú©Û’ خلا ف کسی میں جراٴ ت پیدا نہ ھوتی اور اسلام Ú©Ùˆ مٹا Ù†Û’ میں وہ جو چاھتے ÙˆÚ¾ÛŒ کرتے Û”

[17] یہ جگہ مقام زرود سے پھلے ھے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والوں کے لئے ھے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ھے۔ یہ بھی کھا گیا ھے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ۳۲/کیلومےٹرکا فاصلہ ھے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پھلی منزل ھے۔

[18] طبری ،ج۵،ص ۳۹۴، ابو مخنف کا بیان ھے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ھے ۔شاید یہ قیس بن مسھر کے فرزند ھیں ۔

[19] ابو مخنف کا بیان ھے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ھے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ھم لوگ زھیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جھاں اھل شام داخل نھیں ھو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ھمراہ، سفر میںتھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج۵، ص ۳۹۶، ارشاد، ص ۲۲۱، خوارزمی، ص۳۲۵)

[20] یہ تاتا ریوں ( یا خزریوں ) کا شھر ھے جو انھیںکے دروازوں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ھے ۳۳ھ عھد عثمان میںسلمان بن ربیعہ باھلی کے ھاتھوں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یھی موجود ھے ۔

[21] طبری ،ج۴، ص Û³Û°Ûµ پر Ú¾Û’ کہ سلمان فارسی اور ابو ھریرہ اس جنگ میں لشکر Ú©Û’ ھمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر Ú©ÛŒ الکامل میں Ú¾Û’      (ج ۴،ص Û±Û·)پھریہ بیان Ú¾Û’ کہ جس شخصیت Ù†Û’ ان لوگوں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ھیں نہ کہ باھلی۔ ابن اثیر Ù†Û’ ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا Ú¾Û’ کہ تاریخ طبری Ú©Ùˆ کامل کریں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ھیں۔شیخ مفید Ûº Ù†Û’ ارشاد میں اور فتال Ù†Û’ روضة الواعظین میں ص ۱۵۳پر ØŒ ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ۲۳پر ØŒ خوارزمی Ù†Û’ اپنے مقتل میں ج۱، ص ۲۲۵پر اور البکری Ù†Û’ معجم ج۱ ،ص۳۷۶ پر واضح طور سے اس بات Ú©ÛŒ صراحت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی Ú¾ÛŒ تھے جنھوں Ù†Û’ یہ جملہ کھا تھا۔ اس بات Ú©ÛŒ تائید طبری Ù†Û’ بھی Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کیونکہ طبری Ú©Û’ بیان Ú©Û’ مطابق جناب سلمان وھاں موجود تھے Ø› لیکن ظاھر یہ Ú¾Û’ کہ مدائن فتح ھونے Ú©Û’ بعد جناب سلمان فارسی وھیں Ú©Û’ گورنر رھے اور وھیں اپنی وفات تک قیام پذیر رھے اور کسی بھی جنگ Ú©Û’ لئے وھاں سے نھیں Ù†Ú©Ù„Û’Ø› بلکہ اس جنگ سے قبل عمر Ú©Û’ عھد حکومت میں آپ Ù†Û’ اس دنیا Ú©Ùˆ الوداع کہہ دیا تھا Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next