سفر امام حسین علیه السلام کی منزلیں



پانچو یںمنزل:خزیمیہ[17]

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام ” زرود“ سے پھلے تھی یھاں پر پانی موجود تھا،[18]اس جگہ کا نام خزیمیہ ھے ۔

زھیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ھونا

قبیلہء بنی فنرارہ Ú©Û’ ایک مرد کا بیان Ú¾Û’ : Ú¾Ù… زھیر بن قین بجلی Ú©Û’ ھمراہ تھے اور Ú¾Ù… اسی راستے پر Ú†Ù„ رھے تھے جس راستہ پر حسین (  علیہ السلام ) محو سفر تھے لیکن ھمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ Ú¾Ù… ان Ú©Û’ ھمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھھریں لہٰذ ا زھیر Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… Ú©Û’ مطا بق حسین(علیہ السلام)  جھاں  ٹھھر تے تھے Ú¾Ù… وھاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جھاں پر آگے بڑھتے Ú¾Ù… وھاں پڑاوٴ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں Ú¾Ù… ایک ایسی منزل پر Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ کہ چارو نا چار Ú¾Ù… Ú©Ùˆ بھی وھیں پر رکنا پڑا جھاں پر امام حسین(علیہ السلام)  Ù†Û’ پڑاوٴ ڈالا تھا۔ امام حسین(علیہ السلام)  Ù†Û’ ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور Ú¾Ù… Ù†Û’ اس Ú©Û’ دوسری طرف Ø› Ú¾Ù… لوگ ابھی بےٹھے اپنے خیمے میں کھا نا Ú¾ÛŒ کھا رھے تھے کہ یکایک حسین (علیہ السلام)  کا پیغام رساں حاضر ھوا اور اس Ù†Û’ سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ھوا اور کھا : اے زھیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی Ù†Û’ مجھے تمھاری طرف بھیجا Ú¾Û’ تا کہ تم ان Ú©Û’ پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ھوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان Ú©Û’ ھاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس Ú¾Ùˆ تا تھا کہ Ú¾Ù… سب Ú©Û’ سروں پر طائر بےٹھے ھیں۔[19]زھیر بن قین Ú©ÛŒ زوجہ دلھم بنت عمر کھتی Ú¾Û’ کہ میں Ù†Û’ زھیر سے کھا :  فرزند رسول اللہ تمھارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان Ú©Û’ پاس نہ جاؤ !سبحان اللہ! اگر انھوں Ù†Û’ مجھے بلایا ھوتاتو میں ضرور جاتی اور ان Ú©Û’ گھر بار کلام Ú©Ùˆ ضرور سنتی، پھر میں Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ نہ کھا لیکن زھیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام Ú©ÛŒ بارگاہ میں روانہ ھوگئے ۔ابھی Ú©Ú†Ú¾ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات Ú¾ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ اور تھی؛ چھرے پر خوشی Ú©Û’ آثار تھے اور چھرہ گلاب Ú©ÛŒ طرح کھلا جارھاتھا۔ 

اسی عالم میں زھیر نے اپنے ھمراھیوں سے کھا : تم میں سے جو ھمارے ساتھ آناچاھتا ھے آ جائے اور اگر نھیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ھے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ھوئے زھیر نے کھا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاھتا ھوں، اسے غور سے سنو !ھم لوگ جب مقام”بلنجر“[20]پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ھم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میںمال غنیمت بھی ھاتھ آیا۔اس وقت سلمان باھلی [21]نے ھم لوگوں سے کھا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ھو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاھے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمھارے ھاتھوں لگاھے ؟ ھم لوگوں نے کھا : ھاں کیوں نھیں!تواس نے ھم لوگوں سے کھا : جب تم لوگ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ) کی جوانی دیکھو گے تو تمھاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ھو گی اورجھاں تک میری بات ھے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ھوں۔

پھر زھیر بن قین Ù†Û’ اپنی زوجہ Ú©ÛŒ طرف رخ کرتے ھوئے کھا : اب میں تم Ú©Ùˆ طلا Ù‚ دے رھا ھوںتاکہ تم آزاد Ú¾Ùˆ جاوٴ اورگھروالوں Ú©Û’ پاس جا کر وھیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نھیں Ú¾Û’ کہ میری وجہ سے تمھیں کوئی نقصان پھنچے۔میں تمھارے لئے بھتری چاھتاھوں۔ [22]Ùˆ[23] 

  ایک اور نامہ بر 

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری[24]کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل [25]کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراھی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میںچھاوٴنی ڈالے راھوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ھوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کھا : محل کے اوپر جاوٴ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آوٴ تاکہ میں تمھارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ھیں تو آپ نے فرمایا :

” اٴیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! “

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ھوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نھیں ھے، کے خلاف ان کی پشت پناھی کرو ،یہ سنتے ھی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوںنے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاںٹوٹ گئیں؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی [26]آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شھید کر ڈالا۔

چھٹی منزل: زرود[27]

 Ø¹Ø¨Ø¯Ø§Ù„لہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت Ú¾Û’ کہ ان دونوں Ù†Û’ کھا :

جب Ú¾Ù… حج سے فارغ ھوگئے تو ھماری ساری کوشش یھی تھی کہ Ú¾Ù… کسی طرح حسین(علیہ السلام)  سے راستے میں ملحق Ú¾Ùˆ جائیں تاکہ دیکھیںکہ بات کھاں تک پھنچتی Ú¾Û’Ø› لہٰذا Ú¾Ù… لوگوں Ù†Û’ اپنے ناقوں Ú©Ùˆ سر پٹ دو ڑایا؛ یھاں تک کہ مقام زرود [28]پر Ú¾Ù… ان سے ملحق ھوگئے۔جب Ú¾Ù… لوگ ان Ú©Û’ قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رھنے والا ایک شخص عراق سے حجاز Ú©ÛŒ طرف روانہ Ú¾Û’ØŒ جیسے Ú¾ÛŒ اس Ù†Û’ امام حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس Ú©ÛŒ ملاقات نہ Ú¾Ùˆ لیکن ا مام علیہ السلام وھاں پر Ú©Ú¾Ú‘ Û’ رھے گویا اس Ú©Û’ دیدار Ú©Û’ منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات Ú©Û’ لئے مائل نھیں Ú¾Û’ تو اسے Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر آگے بڑھ گئے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next