سفر امام حسین علیه السلام کی منزلیں



حرنے کھا: ھم ان لوگوں میں سے نھیں ھیں جنھوں نے آپ کوخط لکھا تھا؛ ھم کو تو فقط یہ حکم دیا گیا ھے کہ جب ھمارا آپ سے سامنا ھو تو ھم کسی طرح آپ سے جدا نہ ھو ںیھاں تک کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کی خدمت میں پیش کردیں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:” الموت اٴدنی الیک من ذالک !“ تمھاری موت اس فکر سے زیادہ نزدیک ھے پھرآپ نے اپنے اصحاب سے کھا :” قوموا فارکبوا! “ اٹھو اور سوار ھوجاوٴ تو وہ سب سوار ھوگئے اور خواتین کے سوار ھونے کا انتظار کرنے لگے۔ سوار ھوکر جب یہ نورانی قافلہ چلنے لگا اورمدینہ کی طرف پلٹنے لگا تو حر کی فوج راستہ روک کر سامنے آکر کھڑی ھوگئی تو امام حسین علیہ السلام نے حرسے کھا :” ثکلتک اٴُمک ! ماترید ؟“ تیری ماں تیرے غم میں عزادار ھو!تو کیا چاھتا ھے ؟

حرنے جواب دیا : ”اماواللّہ لو غیرک من العرب یقولھا لی“ خداکی قسم! اگر آپ کے علاوہ عرب میں کسی اور نے یہ جملہ کھاھوتا جو آپ نے مجھ سے کھا ھے اور اس حال میں ھوتا جس میں ابھی آپ ھیںتو میں بھی اسے نہ چھوڑتا اور اس کی ماں کو اس کے غم میں بےٹھادیتا او ر اس سے وھی کھتا جو مجھے کھناچاھےے لیکن خدا کی قسم! میری قدرت نھیں ھے کہ میں آپ کی مادر گرامی کے سلسلہ میں کچھ کھوں مگر یہ کہ ان کا تذکرہ جس قدر اچھائی سے ھوسکتا ھے وھی کرسکتا ھوں ۔[49]اما م حسین علیہ السلام نے دوبارہ حر سے پوچھا : فما ترید ؟ پس تم کیا چاھتے ھو ؟

حرنے کھا: ”اٴرید واللّٰہ ، اٴن اٴنطلق بک الیٰ عبیداللّٰہ بن زیاد “ خدا کی قسم میرا ارادہ یہ ھے کہ آپ کو عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے چلوں ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ”اذن واللہ لا اٴتبعک“ ایسی صورت میں خدا کی قسم میں تمھاری ھمراھی نھیںکروں گا ۔

حرنے جواب دیا:” اذن واللّٰہ لا اٴدعک“ ایسی صورت میں خدا کی قسم! میں آپ کو نھیں چھوڑوں گا ۔

جب بات زیادہ ھوگئی اوردونوں کے درمیان اسی طرح رد وبدل ھونے لگی تو حر نے امام حسین علیہ السلام سے کھا :مجھے آپ سے جنگ کا حکم نھیں دیا گیا ھے، مجھ سے فقط یہ کھا گیا کہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں اور آپ کو کوفہ تک لے آوں۔ اب اگر آپ انکار کررھے ھیں تو ایک ایسا راستہ انتخا ب کیجےے جس سے آپ نہ کوفہ جاسکیں اور نہ ھی مدینہ پلٹ سکیں۔میرے خیال میں آپ کے اور ھمارے درمیان یھی منصفانہ رویہ ھوگا پھر میں عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کروں گا اور آپ کی مرضی ھو گی تو یزید بن معاویہ کو خط لکھئے گا یا پھر عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھئے شاید خداوند عالم کوئی ایسا راستہ نکال دے جس کی وجہ سے مجھ کو آپ سے درگیر ھونے سے نجات مل جائے۔

آپ یھاں سے عْذیب اور قادسیہ کے راستہ سے نکل جائےے (اس وقت آپ لوگ ذوحسم میں موجود تھے ) ذوحسم اور عذیب کے درمیان ۳۸/میل کا فاصلہ تھا۔امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس راستہ پرروانہ ھوگئے اور حر بھی اسی راستہ پر چل پڑا۔[50]

بارھویں منزل : البیضة[51]

 Ø§Ø¨ یہ نورانی قافلہ نہ تو  مدینہ Ú©Û’ راستے پر گامزن تھا۔اورنہ Ú¾ÛŒ کوفہ Ú©ÛŒ طرف اپنے قدم بڑھارھا تھابلکہ ایک تیسری طرف رواںدواںتھا ۔چلتے چلتے ایک منزل آئی جسے ”بیضہ “ کھتے ھیں۔یھاں پر حضرت Ù†Û’ اپنے اصحاب اور حرکے لشکر Ú©Ùˆ مخاطب کر Ú©Û’ ایک خطبہ دیا۔ حمد Ùˆ ثنائے الٰھی Ú©Û’ بعد آپ Ù†Û’ فرمایا:

”ایھاالناس! ا نّ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ( وآلہ) وسلّم  قال :” من راٴی سلطاناًجائر اً مستحلاً لحرم اللّٰہ،ناکثاً لعھد اللّٰہ ØŒ مخالفاًلسنّة رسول اللّٰہ، یعمل فی عباداللّٰہ با لاثم والعدوان فلم یغیر علیہ  بفعل ولا قول ØŒ کان حقاً علی اللّٰہ اٴن یدخلہ مدخلہ“اٴلاوانّ ھولاء قد لزموا طاعة الشیطان وترکو ا طاعة الرحمٰن Ùˆ اٴظھروا الفساد Ùˆ عطّلواالحدود ØŒ واستاٴ ثروا بالفي Ø¡ØŒ واٴحلوا حرام اللّٰہ Ùˆ حرّموا حلال اللّٰہ واٴنا اٴحق من غیری“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next