قرآن کا سیاسی نظام



” و عصوا رسلہ و اتبعوا امر کل جبار عنید “ (۲۰) ” یہ قوم عاد کے افراد ھیںجو اس کے رسولوں کی نافرمانی کیا کرتے تھے اور ھر کینہ ور ظالم کے فرمان کی تعمیل کرتے تھے “ ۔

 Ø§Ø³ÛŒ طرح فرعون Ú©Û’ بارے میں ارشاد Ú¾Û’:

” وما امر فرعون برشید “ (۲۱) ” فرعون کا حکم صحیح نہ تھا “ ۔

 ÙˆÙ„ایت اور امر Ú©Û’ متعلق جو آیتیں پیش Ú©ÛŒ گئیں ان پر غور Ùˆ فکر کرنے سے یہ نتیجہ عائد ھوتا Ú¾Û’ کہ ظالم Ùˆ جابرادر بے صلاحیت حکام جو ضدی ØŒ مسرف ØŒ غاصب، ظالم اور عقل Ùˆ علم Ú©Û’ دشمن ھیں ھرگز ” اولی الامر “ کا مصداق نھیں Ú¾Ùˆ سکتے Û”

 â€ اولی الامر “ کا اطلاق ان رھبروں پر ھوتا Ú¾Û’ جو صالح ØŒ عالم اور منصف Ú¾ÙˆÚº ØŒ Ù¾Ú¾Ù„Û’ مرحلے میں اولی الامر سے مراد اگر پیغمبر  Ú©Û’ ذریعے منتخب افراد ھیں تو دوسرے مرحلے میں اس سے مرادوہ افرادھیں جو علم ØŒ زھد Ùˆ تقویٰ ØŒ عصمت اور عدل Ùˆ انصاف Ú©Û’ لحاظ سے تمام انسانوں پر برتری رکھتے Ú¾Ùˆ Û”

 ÛŒÛ ایک ایسی حقیقت Ú¾Û’ جو تھوڑی سمجہ بوجہ رکھنے والا بھی آسانی سے سمجہ سکتا Ú¾Û’ ،۔ اگر کوئی شخص اس تعریف Ú©Û’ باجود ” اولی الامر “ جیسی مقدس اصطلاح Ú©Ùˆ ظالم Ùˆ جابر افراد Ú©Û’ لئے استعمال کر Ú©Û’ انھیں اللہ Ùˆ رسول  Ú©ÛŒ صف میں کھڑا کرے تو تعجب کا مقام Ú¾Û’ØŒ لھذا اسلامی معاشرے Ú©Ùˆ سیاست کرنے Ú©ÛŒ ذمہ داری ØŒ اسی شخص Ú©Ùˆ زیب دیتی Ú¾Û’ جو صراط مستقیم پر ایمان رکھتا Ú¾Ùˆ اور انبیاء Ùˆ رسل Ú©ÛŒ راہ پر چلتا اور برحق اماموں Ú©Û’ مشن Ú©ÛŒ توسیع Ùˆ تبلیغ کرتا Ú¾Ùˆ Û”

 Ø§Ù…امت

قرآن مجید میں اصطلاح ( امام ) کا ذکر متعدد آیات میں ھواھے ، بعض جگھوں پراسے انسانی ارتقاء کے بلند ترین مقام سے تعبیر کیاگیا ھے کہ نبوت و رسالت کے مقام سے بھی بالا و برترھے ، بعنوان مثال درج ذیل آیت ملاحظہ ھو :

 â€ Ùˆ اذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن ØŒ قال انی جاعلک للناس اماما ØŒ قال Ùˆ من ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین “ (Û²Û²) ” اور (اس وقت Ú©Ùˆ یاد کرو ) جبکہ ابراھیم (ع) کا اس Ú©Û’ رب Ù†Û’ چند کلمات سے امتحان لیا اور ابراھیم (ع) Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ پورا کر دیا، ( خدا Ù†Û’ ) فرمایا کہ میں تم Ú©Ùˆ تمام انسانوں کا امام مقرر کرنے والا Ú¾ÙˆÚº ØŒ( ابراھیم Ù†Û’ ) عرض Ú©ÛŒ ،اور میری اولاد میں سے ØŒ( خدا Ù†Û’ ) فرمایا جو ظالم Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ ان تک میرا عھدہ نھیں پھونچے گا Û”

اگر چہ یہ آیت نفوس و قلوب کے اس معنوی مقام و منزل کی نشاندھی کرتی ھے جس کا تعلق عالم ملکوت اور ولایت تکوینی تک محدود ھے اور اس سے ھٹ کر عام چیزوں سے اس کا کوئی تعلق نھیں ھے لیکن اس لفظ کے عام مفھوم اور آیت کے آخری حصے کو مد نظر رکھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ظالم افراد قیادت و امامت کے لائق نھیں ھیں ۔ لفظ ظلم کی ضد یعنی عدالت ، امامت و رھبری کے لئے بنیادی شرط ھے لیکن جن آیات میں لفظ امام استعمال ھوا ھے ( اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ امام کے معنی رھبر و پیشوا اور مقدم کے ھیں ) اگر ان پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ھوتا ھے کہ رھبر و پیشوا دو قسم کے ھیں جو ھمیشہ سے انسانوں کو الگ اور متضاد سمتوں میں لے جاتے رھے ھیں ۔

بعنوان مثال لائق اور بر حق اماموں کی بابت یوں بیان ھوا ھے :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next