قرآن کا سیاسی نظام



ایک واقعہ تو وھی ھے جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایک ایسا فرما نروا اور سر براہ دیا جائے جو ان کو ساتھ لے کر دشمن سے مقابلہ کر سکے :

” وقال لھم نبیھم ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکا قالوا انی یکون لہ الملک علینا ونحن احق بالملک منہ و لم یؤت سعة من المال قال ان اللہ اصطفہ علیکم و زادہ بسطة فی العلم وا لجسم و اللہ یؤتی ملکہ من یشاء و اللہ واسع علیم “ (۲)

” ان Ú©Û’ پیغمبر Ù†Û’ کھا اللہ Ù†Û’ تمھارے لئے طالوت Ú©Ùˆ حاکم مقرر کیا Ú¾Û’ Û” ان لوگوں Ù†Û’ کھا کہ یہ کس طرح حکومت کریں Ú¯Û’ ان Ú©Û’ پاس تو مال Ú©ÛŒ فراوانی نھیں Ú¾Û’ ان سے زیادہ تو ھمیں حقدار حکومت ھیں Û” نبی Ù†Û’ جواب دیا کہ انھیں اللہ Ù†Û’  تمھارے  لئے منتخب کیا Ú¾Û’ اور علم Ùˆ جسم میں وسعت عطا فرمائی Ú¾Û’ اور اللہ جسے چاھتا Ú¾Û’ اپنا ملک دے دیتا Ú¾Û’ کہ وہ صاحب وسعت بھی Ú¾Û’ اور صاحب علم بھی Ú¾Û’ Û”

یہ آیت ان افراد کے افکار و خیالات کی تردید کرتی ھے جو سربراھی کے لئے مال و ثروت کو ضروری سمجھتے ھیں اور ایک ایسے معیار سے آشنا کراتی ھے جو کسی فرد کی حاکمانہ لیاقت و قابلیت کا ثبوت فراھم کرتا ھو ، یھاں علم و قدرت کواستحقاق فرمانروائی کا معیار قرار دیا گیا ھے ۔

اس آیۂ مبارکہ میں ایک بھت لطیف نکتہ یہ ھے کہ جو سر براھی قابلیت اور صلاحیت کی بنیادوں پر مستحکم ھوتی ھے وہ الطاف باری تعالیٰ سے سر شار ھوتی ھے اور خدا وند کریم سوائے ان لوگوں کے جو اھلیت رکھتے ھیں ھر کس و ناکس کو اس عطیہ سے نھیں نوازتا ، اس لئے کہ یہ عطیہ وھی مالکیت مالک الملک ھے جو لائق و شایستہ سربراہ کی ملکیت میں دیا جاتا ھے ورنہ انسان کوحق نھیں ھے کہ وہ علم ، قدرت اور اپنی سربراھی پر ناز کرے ، اس لئے کہ قدرت اور علم در حقیقت ابتداء خدا وند کریم کے لئے ھے پھر کھیں انسان تک اس کی رسائی ھوتی ھے ۔

”قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر “ ( ۳)

پیغمبر آپ کھئے کہ خدا یا تو صاحب اقتدار ھے جس کو چاھتا ھے اقتدار دیدیتاھے اور جس سے چاھتا ھے سلب کرلیتا ھے ۔ جس کو چاھتا ھے عزت دیتاھے اور جس کو چاھتا ھے ذلیل کرتا ھے ۔ سارا خیر تیر ے ھاتھ میں ھے اورھی ھر شہ پر قادر ھے ۔

سورہ بنی اسرائیل میں طالوت و جالوت کے درمیان جنگ کے واقعات اس طرح بیان کئے گئے ھیں :

” فھزموھم باذن اللہ و قتل داود جالوت و اٰتاہ اللہ الملک و الحمکة و علمہ مما یشاء “ (۴)

نتیجہ یہ ھوا کہ ان لوگوں نے جالوت کے لشکر کو خدا کے حکم سے شکست دیدی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انھیں ملک اور حکمت عطاکردی اور اپنے علم سے جس قدر چاھا دیدیا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next