صحیفہ حضرت فاطمه زھراء سلام اللہ علیھا



۶۶۔ اپنی وفات میں تعجیل کیلئے دعا

پروردگار: میری وفات میں جلدی فرما، کیونکہ زندگی میرے لئے تنگ اور مشکل ہو گئی ہے۔

۶۷۔ وفات کے وقت

پروردگار: محمد مصطفےٰ اور ان Ú©Û’ مجھ سے اشتیاق اور پیار Ú©Û’ واسطے اورمیرے شوہر علی المرتضےٰ اور ان Ú©Û’ غم کھانے کا واسطہ حسن مجتبیٰ Ú©Û’ مجھ پر گریہ کرنے کا واسطہ،حسین شہید اور ان Ú©Û’ غمگین ہونے کا واسطہ اور میرے فرزندوں اور ان Ú©Û’ مجھ پر حسرت کرنے کا واسطہ کہ پیغمبر اسلام(ص) Ú©ÛŒ امت Ú©Û’ گناہوں سے درگذر فرما، اور ان پر رحم فرما، اور ان Ú©Ùˆ داخل بہشت فرما، اور میری  بیٹیوں کا واسطہ اور ان Ú©Û’ پرحسرت ہونے کا واسطہ کہ پیغمبر اسلام(ص) Ú©ÛŒ امت Ú©Û’ گناہگاروں Ú©ÛŒ مغفرت فرما اور ان پر رحم کر اور ان Ú©Ùˆ جنت میں داخل فرما، کیونکہ توسب سے بڑا مسئول اور بہترین رحم کرنے والا ہے۔

۶۸۔ وقت وفات میں رحمت الہی کے حصول کیلئے

عبداللہ بن حسن، اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہنگام وفات جناب زہرا نے ایک جانب توجہ کرتے ہوئے یوں فرمایا، حضرت جبرئیل پر سلام، رسول خدا پر سلام، اے پروردگار، مجھے اپنے پیغمبر کی ہمراہی نصیب فرما، اے پروردگار تیرے رضوان میں، تیرے جوار میں، اور اپنے پرامن بہشتی گھر میں ساکن قرار دے۔ پھر فرمایا کیا جو میں دیکھ رہی ہوں آپ بھی دیکھ رہے ہیں؟ پوچھا کیا دیکھ رہی ہیں، فرمایا یہ اہل آسمان کے دستے ہیں، یہ جبرئیل اور یہ پیغمبر ہیں جو فرما رہے ہیں اے میری بیٹی آؤ جو کچھ تیرے لئے آگے ہے تیرے لئے بہتر ہے۔

 

جناب سیدہ کے خطبات

۱۔ فدک کے غصب ہونی کے بعد

روایت ہے جب ابو بکر، اور عمر نے فدک غصب کر لینے کا فیصلہ کیا، اور یہ خبر جناب زہرا کے پاس پہنچی، تو آپ نے برقعہ سر پر لیا اور اپنی رشتہ دار اور گھرمیں کام کرنے والی خواتین کے ہمراہ اس انداز میں مسجد نبوی کی جانب بڑھیں کہ آپ کا برقعہ زمین پر کھنچا جا رہا تھا اور پیغمبر اسلام(ص) کی طرح چلتی ہوئی ابو بکر کے پاس گئیں جو مہاجرین، و انصار اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے، اس دوران لوگوں اور آپ کے درمیان پردہ لگا دیا گیا، آپ نے دلخراش آہ بھری جس پر لوگ رونے لگے اور مسجد اور محفل میں ہیجان پیدا ہو گیا، کچھ دیر خاموش رہیں، یہاں تک کہ دوبارہ ولوگوں پر سکوت طاری ہوا، تو تب حمد باری تعالیٰ سے اپنے کلام کا آغاز ہو گیا، اور رسول خدا پر درود و سلام بھیجا، دوبارہ رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، پھر جب سکوت طاری ہوا تو اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا۔

 

نعمتیں عطا کرنے پر اس کی حمد وثنا کرتی ہوں، اور الہام کرنے پر اس کی شکر گذار ہوں، مخلوق پر نعمتوں کی کثرت اور وسیع و عریض عطاؤں پر اس کی ثنا گواہوں، ان گنت احسانات جن کو شمار کرنے سے عاجز ہیں اور اجر و ثواب دینے کی حد اور انتہا کہیں زیادہ ہے اور ہمیشہ کے لئے ادراک اور شعور سے وسیع تر ہے اس نے لوگوں کو دعوت دی کہ اس سے زیادہ شکر گذار کریں تاکہ وہ نعمتوں میں اضافہ فرمائے، اور اس طرح نعمتوں میں وسعت سے لوگوں کو اپنی شکر گذاری کی طرف متوجہ کیا اور شکر گذار ہونے پر ان نعمتوں میں دوگنا اضافہ فرمایا۔

 

اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں، یہ بہت بڑی بات ہے کہ اخلاص کو لوگوں کی عاقبت بخیر ہونے اور دلوں کو اپنے سے ملنے کا ظرف قرار دیا ہے اور تفکر اور سوچنے کے لئے اپنی پہچان کو آسان بنایا، وہ ذات جسے آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں، زبانیں اس کی توصیف کرنے سے ناتواں ہیں، خیالات اس کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next