صحیفہ حضرت فاطمه زھراء سلام اللہ علیھا



پھر حضرت زہرا اپنے گھر لوٹ آئیں، حضرت امام علی ان کے انتظار میں تھے جناب سیدہ جب گھر آکر ذرا پرسکون ہوئیں تو فرمانے لگیں۔ اے ابو طالب کے بیٹے، جس طرح جنین ماں کے پیٹ میں چھپ جاتا ہے چھپ گئے ہو اور تہمتوں کی کثرت کی وجہ سے زمین گیر ہوگئے ہو۔ ہاں! شاہیں کے پر ٹوٹ گئے جبکہ چھوٹے پر بھی آپ کے ساتھ پرواز کے دوران خیانت کریں گے۔ یہ پسرابی قصافہ ہے، جس نے میرے باپ کا ہدیہ اور میرے دو بچوں کی زندگی کا تمام سرمایہ مجھ سے چھین لیا ہے، واضح طور پر مجھ سے دشمنی کی ہے، گفتگو کے دوران میں اس کو بہت جھگڑالو پایاہے، انصار نے میری حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا جبکہ مہاجرین نے بھی میری مدد نہیں کی اور لوگوں نے بھی میری مدد سے چشم پوشی کی ہے، نہ کوئی دفاع کرنے والا رکھتی ہوں اور نہ کوئی ایسا آدمی جوان کو یہ کام کرنے سے روکے، میں اس حال میں گھر سے نکلی کہ بہت پریشان تھی اور یونہی خالی ہاتھ واپس آگئی۔

 

جس دن سے آپ نے اپنی تلوار زمین پر رکھی اس دن سے خود کو خانہ نشین کر لیا ہے، آپ وہ بہادر تھے جو گیدڑوں کو قتل کرتے تھے، لیکن آج زمین پر آرام کر رہے ہیں، مجھ سے بولنے والے کو کوئی جواب نہیں دیا اور باطل کو بھی مجھ سے دور نہیں کیا جبکہ میں خود سے اختیار نہیں رکھتی، کاش اس کام سے پہلے اور اس طرح ذلیل و خوار ہونے سے قبل ہی مر چکی ہوتی، یہ جو اس طرح گفتگو کر رہی ہوں۔ پروردگار مغفرت چاہتی ہوں جبکہ مدد اور کمک آپ کی جانب سے ہے۔

 

اس کے بعد ہر صبح و شام میں مجھ پر افسوس ہو، میری پناہ دنیا سے چلی گئی ہے اور میرے بازو بے سکت ہوگئے ہیں، میری شکایت اپنے باپ سے تھی اور خدا سے مدد کی طلب گار ہوں۔

 

اے پروردگار: تیری قدرت اور توانائی سب سے بڑھ کر تیرا عقاب اور عذاب دردناک ہے۔

 

پھر حضرت امام علی نے فرمایا۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 next