تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


(3 ) . وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص219 .

(4 ) . كافي ،باب الورع، ج‏2 ، ص 76.

(5 ) . يزدي ،دكتر محمود؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي .

 

تقیہ تاریخ کے آئنے میں

الف:ظهوراسلام سے پهلے

تاريخی اعتبار سے تقيہ کی ضرورت انسان کو اس وقت محسوس ہوتی ہے ،جب وہ اپنے آپ کو دشمن کے سامنے عاجز محسوس کرے . اور یہ عاجزی انسان میں گام بہ گام احساس ہونے لگتا ہے .اور یہ ایک طبیعی چيز ہے کہ انسان اس خوف اور ہراس کو اپنے سے دور کرنے کی فکر کرے .اور اس طبیعی امر میں تمام عالم بشریت حتی تمام ذی روح "حیوانات" بھی شریک ہیں.

تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اس لئے اسے زندگی کے صرف ایک حصے سے مخصوص نہیں کياجاسکتا .بلکہ زندگی کے تمام پہلو میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے .خواہ یہ اخطار بھوک اور پیاس کی شکل میں ہو یا گرمی ، سردی اور بیماری کی شکل میں ہو ؛ انسان ان خطرات سے بچنے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر لیتا ہے . لیکن ان طبیعی خطرات میں کوئی جنگ و جدال کی ضرورت نہیں ہے . لیکن غیر طبیعی خطرات اور مشکلات کے موقع پر جیسے اپنے کسی مسلمان بھائی پر ظلم وستم کو روکنے کا سبب هو تو تقیہ کرنا بہترہے .

اس فصل ميں هم بہت هي اختصار کے ساتھ انبياء اوراولياءالهي نے جهاں جهاں تقيہ کئے هيں ؛ ان موارد کو بيان کريں گے :

حضرت آدم(ع) اور تقيہ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next