تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


اگر ابوطالب (ع) اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام بطور نمونہ برپا نہ ہوتے . پس ابوطالب (ع) نے مکہ میں رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) کو پناہ دی اور ان کے بیٹے نے مدینے میں آپ (صلی الله علیه و آله وسلم) کی جان بچانے کے خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی ...

اگر علی نہ ہوتے تو ابوطالب سید سادات المسلمین والسابقین الاولین ہوتے .جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) سے امیر المؤمنین(ع) کی ولادت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی ، یہاں تک کہ ابوطالب (ع)کے بارے میں عرض کیا :

قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اللَّهُ أَكْبَرُ النَّاسُ يَقُولُونَ [إِنَ‏] أَبَا طَالِبٍ مَاتَ كَافِراً قَالَ يَا جَابِرُ اللَّهُ أَعْلَمُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ لَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا إِلَى السَّمَاءِ انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرْشِ فَرَأَيْتُ أَرْبَعَةَ أَنْوَارٍ فَقُلْتُ إِلَهِي مَا هَذِهِ الْأَنْوَارُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذَا عَبْدُالْمُطَّلِبِ وَ هَذَا أَبُو طَالِبٍ وَ هَذَا أَبُوكَ عَبْدُ اللَّهِ وَ هَذَا أَخُوكَ طَالِبٌ فَقُلْتُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي فَبِمَا نَالُوا هَذِهِ الدَّرَجَةَ قَالَ بِكِتْمَانِهِمُ الْإِيمَانَ وَ إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ وَ صَبْرِهِمْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى مَاتُوا .(5 )

جابر بن عبد اللہ انصاری نےعرض کیا : یا رسول اللہ ! خدا بہت بڑا ہے ؛ لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالب حالت کفر میں اس دنیا سے رحلت کر گئے! فرمایا: اے جابر خداوند سب سے زیادہ جاننے والا ہے علم غیب کا مالک ہے ، جس رات کو مجھے معراج پر لے گئے اور عرش پر پہنچےتو چار نور دیکھنے میں آیا ، میں سے سوال کیا : خدایا یہ چار نور کن کے ہیں ؟!تو الله تعالي کی طرف سے جواب آیا : اے محمد!(صلی الله علیه و آله وسلم) یہ عبدالمطلب ، ابوطالب،تیرے والد عبداللہ اور تیرے بھائی طالب کے ہیں.میں نے کہا : اے میرے الله اے میرے آقا ! یہ لوگ کیسے اس مرتبے پر پہنچے ؟ خدا تعالی کی طرف سے جواب آیا : ایمان کے چھپانے اور کافروں کے مقابلے میں کفر کے اظہار اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے پہنچے ہیں.

يونس بن نباته نے امام صادق(ع) سے روايت کی ہے : قال(ع) يا يونس ما يقول الناس في ايمان ابو طالب(ع) قلت جعلت فداك ، يقولون «هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه». فقال كذب اعداءالله ، ان اباطالب(ع) من رفقاء النبيين و الصديقين و الشهداء و الصالحين و حسن اولئك رفيقا.(6 )

چنانچہ محمد بن یونس نے اپنے والد سے انہوں نے امام صادق(ع) سے نقل کيا هے کہ آنحضرت نے ہم سے کہا: اے یونس ! لوگ ابوطالب کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا ، مولیٰ میں آپ پر قربان ہو جاؤں ؛ لوگ کہتے ہیں : هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه.

ابو طالب کھولتے ہوئے آگ میں پیروں میں آگ کے جوتے پہنائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ان کا دماغ کھول رہا ہے . امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ خدا کے دشمن لوگ غلط کہہ رہے ہیں ! ابوطالب انبیا صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھیوں میں سے ہے اور وہ لوگ کتنے اچھے ساتھی ہیں .(7 )

كوتاه سخن اگر علمای اہل تسنن بھی تھوڑا انصاف سے کام لیتے تو ايمان ابو طالب(ع) کو درک کرلیتے کہ ایمان کے کتنے درجے پر آپ فائز ہیں .لیکن بعض خود غرض اور بغض اور کینہ دل میں رکھنے والے لوگوں نے ایک جعلی اور ضعیف روایت جو حدیث ضحضاح کے نام سے مشہور ہے کو دلیل بنا کر امير المؤمنين کے پدر گرامی اور پيامبر اكرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کے چچا ابو طالب ايمان لائے بغیر اس دنیا سے چلے گئے ہیں .اگران لوگوں کو اہل بیت اور علی ابن ابی طالب سے دشمنی نہ ہوتی تو ان ساری صحیح اور معتبر حدیثوں میں سے صرف ایک ضعیف حدیث کو نہیں اپناتے . اور شيخ بطحا مؤمن قريش پيامبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم)کے بڑے حامى پر یہ تہمت نہ لگاتے .(8 )

محققین اور راويو ں نے اس حديث کی بررسى اور گہری تحقيق کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالے ہیں کہ یہ حدیث مورد اعتماد نہیں ہے . علمای اہل سنت کے نزدیک اس روایت کو نقل کرنے والے جھوٹے ، بعض مجہول اور بعض علی اور اولاد علی (ع)سے بغض و کینہ رکھنے والے تھے . جن میں سے ایک مغيرة بن شعبہ ہے جو ایک فاسق و فاجر اور سرسخت دشمن اہل بیت تھا .اس بارے میں درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں :

1- اسنى المطالب في نجاة ابي طالب، سيد احمد زينى دحلان.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next