تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


(2 ) . التقيہ في فقه اهل البيت(ع) ، ج۱ ، ص ۱۵.

(3 ) . انبياء /۵۱ ـ ۶۵.

(4 ) . سوره يوسف/۷۰.

(5 ) . تاريخ الامر والملوك،ج۱،ص۱۷۱.

 

حضرت موسي(ع)اورتقيہ

قرآن كريم نے حضرت موسي(ع) کی شجاعت کے بارے میں کئی دفعہ اشارہ کیا ہے کہ کس طرح فرعون کے ساتھ روبرو ہوا ، حضرت موسیٰ کو بہت سے پیغمبروں پر فضیلت حاصل ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ.(1 )

یہ سب رسول (ع)وہ ہیں جنہیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے. ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں .

ان تمام شجاعت اور فضیلتوں کے باوجود اپنی زندگی میں کئی موقعوں پر لوگوں کو رسالت کی تبلیغ کے دوران تقیہ کئے ہیں .اور یہ تقیہ اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ باطل کا حق پر غلبہ پانے کے خوف سے کئے ہیں .جب خدا نے موسي اور هارون (ع) کو حکم دیا :

اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى .(2)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next