تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


۲ـ يحي بن عبد الله بن حسن نے ایک خط امام(ع) کے نام لکھا ،کہ آنحضرت کو حكومت عباسي کے خلاف قیام کرنے سے روکتے ہوئے سزا دیا جائے .لیکن امام(ع) نے ان کے جواب میں خط لکھا جس کے ضمن میں اسے بطورخلیفہ یاد کیا . امام(ع) کا یہ خط هارون کے ہاتھوں میں پہونچ گیا .جسے دیکھ کر انہوں نے کہا: لوگ موسي ابن جعفر(ع) کے بارے میں مجھے بہت سی چیزیں بتا تے ہیں ، اور مجھے ان کے خلاف اکساتے ہیں جب کہ وہ ان اتہامات سے پاک هیں . (14 )

۳ـ علي ابن يقطين جو هارون کی حکومت میں مشغول تھا ؛ ایک خط امام کو لکھتے ہیں کہ اور امام سے وضو کے بارے میں سوال کرتے ہیں. امام(ع)اس کے جواب میں اهل سنت کے وضو کا طریقہ اسے تعلیم دیتے ہیں کہ تو انہیں کی طرح وضو کیا کرو . اگرچه علي ابن يقطين کو بڑاتعجب ہوا ، لیکن حکم امام(ع) کی اطاعت ضروری تھی . هارون كو بھی علي ابن يقطين پرشك ہو چکا تھا ، سوچا کہ اس کے وضو کرنے کے طریقے کو مشاہدہ کروں گا . اگر اس نے مذهب شيعه کے مطابق وضوکیا تو اسے بہت سخت سزادوں گا . لیکن جب ان کے وضوکرنے کے طریقے کو دیکھا تو اسے اطمنان ہواکه ان کے بارے ميں لوگ جھوٹے تھے ، تو علی ابن یقطین کی عزت اور مقام ان کے نزدیک مزید بڑھ گيا .بلا فاصله اس ماجرا کے بعد امام(ع) کی طرف سے علي ابن یقطین کو دستور ملا کہ وضو اب مذهب شيعه کے مطابق انجام دیا کریں . (15)

امام رضا(ع)اور تقيہ

امام رضا(ع)کی امامت کا دور (۱۸۳ ـ۲۰۳)تک ہے ، جسے تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

پہلا دور :۱۸۳ سے لیکر ۱۹۳ سال تک کا دور ہے . اس دور میں ہارون الرشید حاکم تھا ؛ يه دورشیعیان حیدر کرار پر بہت سخت گذرا.اس ملعون نے قسم کھا یا ہوا تھا کہ موسي ابن جعفر(ع) کے بعد جو بھی امامت کا ادعی کرے گا اسے قتل کیا جائے گا . لیکن اس کے باوجود امام رضا(ع) نے بغیر کسی خوف اور وہم و گمان کے اپنی امامت کو لوگوں پرآشکار کیا امام کا تقیہ نہ کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت خواہشات نفسانی اور مال و زر کے اسیروں نے آپ کی امامت کا انکار کرکے فرقہ واقفیہ کی بنیاد ڈالی تھی . امام موسی (ع) کے زندہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے . چنانچہ کہنے لگے : الامام الکاظم لم یمت ولایموت ورفع الی السماء وقال رسول الله فی شانه:ویملأالارض قسطاً وعدلاً کماملئت ظلماً وجوراً.(16 ) امام کاظم فوت نہیں ہوا ہے اور نہ فوت ہوگا ، انہیں خدا تعالی نے آسمان کی طرف اٹھایا ہے . اور رسول خدا (ص) نے ان کی شان میں فرمایا :زمین کو وہ عدل و انصاف سے اسي طرح پر کرے گا جس طرح ظلم و جور سے پر ہو چکی ہے .

اس ماجرے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے ہاتھوں مال خمس اور زکوۃ کا کچھ رقم موجود تھا . کیونکہ حضرت امام موسی بن جعفر قید و بند میں تھے ؛ جس کے بعد آپ کی شہادت ہوئی تو جو مال ان کے ہاتھوں میں موجود تھا ،ضبط کر لئے اور ان کے فرزند ارجمند علی ابن موسی الرضا (ع)کی امامت کے منکر ہوگئے . (17 )

اے میرے بیٹے ! خدا تعالیٰ نے فرمایا: میں روی زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کروں گا ، اور خدا جو بھی فرماتا ہے وہ اسے انجام دے گا . زياد بن مروان قندى جو گروہ واقفيه میں سے تھا کہتا ہے میں ابو ابراہیم عليه السّلام کی خدمت میں تھا کہ ان کے بیٹے علی ابن موسیٰ الرضا (ع)بھی ان کی خدمت میں حاضر تھا ؛ مجھ سے فرمانے لگا: اے زیاد ! یہ میرا بیٹا ہے اس کا قول میرا قول ہے اس کی کتاب میری کتاب ہے اس کا رسول میرا رسول ہے ، اور جو بھی وہ زبان پر جاری کرے گا و حق ہوگا. (18 )

بہر حال امام(ع) نے اپنی امامت کا اظہار کیا تو آپ کے ایک صحابی نے اصرار کیا کہ آپ مزيد لوگوں کو اپنی امامت کے بارے میں وضاحت کریں ؛ توفرمایا: اس سے بڑھ کر اور کیا وضاحت کروں ؟! کیا تم چاہتے ہو کہ میں ہارون کے پاس جاکر اعلان کروں کہ میں لوگوں کا امام ہوں اور تیری خلافت اور تیرا منصب باطل ہے ؟! ایسا توپيامبراكرم(ص) نے بھی اپنی رسالت کے اولین بار اعلان کرتے وقت نہیں کیا ہے ، بلکہ آغاز رسالت میں اپنے دوستوں ، عزیزوں اورقابل اعتماد افراد کو جمع کرکے اپنی نبوت کا اظہار کیا .(19 )

..............

(1 ). ابن هشام؛ السنة النبويه،ج۳، ص۳۱۷ .



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next