تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


الْإِمَامُ الْعَسْكَرِيُّ(ع)فِي تَفْسِيرِهِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً قَالَ الصَّادِقُ ع قُولُوا لِلنَّاسِ كُلِّهِمْ حُسْناً مُؤْمِنِهِمْ وَ مُخَالِفِهِمْ أَمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَيَبْسُطُ لَهُمْ وَجْهَهُ وَ أَمَّا الْمُخَالِفُونَ فَيُكَلِّمُهُمْ بِالْمُدَارَاةِ لِاجْتِذَبہمْ إِلَى الْإِيمَانِ فَإِنِ اسْتَتَرَ مِنْ ذَلِكَ يَكُفَّ شُرُورَهُمْ عَنْ نَفْسِهِ وَ عَنْ إِخْوَانِهِ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ الْإِمَامُ ع إِنَّ مُدَارَاةَ أَعْدَاءِ اللَّهِ مِنْ أَفْضَلِ صَدَقَةِ الْمَرْءِ عَلَى نَفْسِهِ وَ إِخْوَانِهِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ فِي مَنْزِلِهِ إِذِ اسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي سَلُولٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی الله علیه و آله وسلم) بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ ائْذَنُوا لَهُ فَأَذِنُوا لَهُ فَلَمَّا دَخَلَ أَجْلَسَهُ وَ بَشَرَ فِي وَجْهِهِ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قُلْتَ افِيهِ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ بہ مِنَ الْبِشْرِ مَا فَعَلْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا عُوَيْشُ يَا حُمَيْرَاءُ إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ يُكْرَمُ اتِّقَاءَ شَرِّهِ وَ قَالَ الْإِمَامُ ع مَا مِنْ عَبْدٍ وَ لَا أَمَةٍ دَارَى عِبَادَ اللَّهِ بَأَحْسَنِ الْمُدَارَاةِ وَ لَمْ يَدْخُلْ بہا فِي بَاطِلٍ وَ لَمْ يَخْرُجْ بہا مِنْ حَقٍّ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ نَفَسَهُ تَسْبِيحاً وَ زَكَّى أَعْمَالَهُ وَ أَعْطَاهُ لِصَبْرِهِ عَلَى كِتْمَانِ سِرِّنَا وَ احْتِمَالِ الْغَيْظِ لِمَا يَحْتَمِلُهُ مِنْ أَعْدَائِنَا ثَوَابَ الْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. ...(11)

امام عسکري (ع)اپني تفسير ميں امام صادق (ع)سے اس آيه شريفه کے ذيل ميں نقل فرماتے هيں :که هر انسان کے ساتھ نيک گفتار هونا چاهئے ، خوہ وہ مؤمن هو يا ان کا مخالف هو.مؤمنوں کے ساتھ خوش روئي کے ساتھ پيش آئے،ليکن ان کے مخالفين کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آئيں تاکه ان کوايمان کي طرف جلب کرسکيں. اگر يه لوگ ان سے چھپائے تو ان کے شر سے اپنے آپ کو ، اپنے مؤمن بھائيوں کوبچا سکتے هيں .امام نے فرمايا : دشمنوں کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آنا؛ اپني جان، اور اپنے بھائيوں کا بہترين صدقه دينا هے.رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم)ايک دن اپنے گھر ميں تشريف فرما تھے که عبدالله بن ابي سلول نے دستک دي ، تو رسول الله (صلی الله علیه و آله وسلم) نے فرمايا: قوم کا سب سے برا انسان هے ، اسے اندر آنے کي اجازت دي جائے . جب وہ اندر داخل هواتو آپ نے خنده پيشاني سے اس کا استقبال کيا . جب وہ نکل گيا تو عائشه نے سوال کيا : يا رسول الله ! آپ نے کيا کچھ ، اور کها کچھ؟تو رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) نے فرمايا:اے عويش اے حميرا! الله کے نزديک قيامت کے دن سب سے برا انسان وہ هوگا، جس کے خوف سے لوگ اس کي عزت کريں .

امام نے فرمايا : کسي بھي مرد اور عورت ميں سے کوئي بھي الله کے بندوں کيساتھ نيکي کرے ،در حاليکه وہ اس حالت سے بہر بھي نهيں نکلتا،مگر يه که الله تعالي اس کے سانسوں کو اپني تسبيح پڑھنے کا ثواب لکھ ديتا هے . اور اس کے سارے اعمال کوخالص نه بنائے اور اسے همارے اسرار کو چھپانے ، اور دشمن کے غم وغصے کو برداشت کرنے کي وجه سے، اس شخص کا ثواب عطا کرے گا ، جو الله کي راه ميں جهاد کرتے هوئے اپنے خون ميں غلطان هوچکا هو.اور اس مداراتي تقيہ کے نتائج کو بھی بیان فرمایا.

عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع ... قَالَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ عَنِ النَّاسِ- فَإِنَّمَا يَكُفُّ عَنْهُمْ يَداً وَاحِدَةً- وَ يَكُفُّونَ عَنْهُمْ أَيَادِيَ كَثِيرَة(12 ) جو بھی لوگوں کے ساتھ مدارات اور مہربانی کرے اور ان کےساتھ سختی سے پیش نہ آئے تو حقیقت میں ایک ہاتھ کو كسي دوسرے کو اذیت اور آذار پہنچانے سے باز رکھا لیکن بہت سے ہاتھوں کو اپنے اوپر ظلم و تعدی کرنے سے دور رکھا ہے .

امام موسي كاظم(ع) اور تقيہ

امام كاظم(ع) اپنے ۳۵ساله دور امامت (۱۴۸ ـ ۱۸۳)ه میں جو حضرت حجت(عج) کی امامت کے علاوہ طولاني ترين اورسخت ترين دور شمار ہوتا ہے .

یہ دور،بنی عباس کے سرسخت اورسفاک خلفاء جیسے منصور ، مهدي ، هادي اور هارون کی حکومت سے مصادف تھا .کہ ان میں سے ہر ایک امامت کی نسبت بہت زیادہ حساس تھے ، یہاں تک کہ امام کے بعض چاہنے والوں ، جیسے محمد ابن ابي عمير کو کئی عرصے تک جیل میں ڈالے گئے . اسی دور میں حسين ابن علي ابن حسن جو شهيد فخ کے نام سے معروف تھے ، ۱۶۹ه میں حکومت کے ساتھ ان کي جنگ هوئي ،جو ان کی شهادت پر جا کر ختم ہوئي. اور هادي عباسي یه تصور كررہا تھا کہ یہ جنگ ،امام(ع) کے فرمان کے مطابق کي گئي ہے، اس لئے ان کے اوپر زیادہ سخت گيري کرنا شروع کیا .

اس دورمیں تقيہ امام(ع)کے بعض موارد

۱ـ جب خلیفہ موسي الهادي اس دنيا سے چلے گئے تو امام(ع) نے ان کی ماں خیزران کو تسليتي پیغام دیتے ہوئے خلیفہ کو امير المؤمنين کا عنوان دے کر ياد کرنا اور اس کیلئے رحمه الله کہہ کر طلب مغفرت کرنا اور پھر هارون کی خلافت کو بھی امير المؤمنين کے عنوان سے ياد کرتے ہوئے ان کو مبارک باد کہنا ،

مرحوم مجلسي(رہ) نے اس خط کے ذیل میں لکھا ہے کہ ، آنحضرت کے زمانے میں شدت تقيہ کا نظاره كر سکتے ہیں كه انہیں ایک فاسق اور جابر حاکم کے لئے ایسےالقابات لکھنے پر مجبورکرديا تھا. (13 )



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next