تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


الظَّالِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءيَنطِقُونَ .

اور بہ تحقیق ابراہیم کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے. ابراہیم نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں.وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہود ہ گوئی کر رہے ہیں؟ابراہیم نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں. اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا. چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں.وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے. کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں. کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں. کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟ ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں. (یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو. پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم ) سے کہا: تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے .

بخاري روايت کرتا ہے : حضرت ابراهيم(ع) تین جھوٹ بولے: اس میں سے دو خدا کی ذات کے بارے میں «قوله اني سقيم» اور« بل فعله كبير هم» تیسرا جھوٹ اپنی بیوی سارہ کے بارے میں ، جو خوبصورت تھی ، اور فرعون کو کسی نے ان کی لالچ دکھائی تھی . فرعون نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور حضرت ابراہیم سے سوال کیا : یہ جو تمھارے ساتھ آئی ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا : یہ میری بہن ہے . اور ادھر سارا سے بھی کہہ رکھا تھا کہ تو بھی میری بات کی تائید کرے ، درحالیکہ خود ان کی بیوی تھی . حضرت ابراہیم کا تقیہ کرنے کا سبب یہی تھا کہ اپنی جان بچائی جائے ،کیونکہ فرعون ابراهيم کو قتل کرنا چاہتا تھا .

حضرت يوسف(ع)ا ور تقيہ

حضرت يوسف(ع) کا واقعه بہت طولاني اور معروف ہے ، اس لئے خلاصه كلام بيان کروں گا وہ یوں ہے : فرمایا : فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ.(4 )

اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو.

اسی سے استدلال کرتے هوئے امام صادق(ع) نے فرمایا : التقيہ من دين الله . قلت:من دين الله؟ قال(ع):اي والله من دين الله لقد قال يوسف(ع): ايتها العير انكم لسارقون والله ما كانوا سرقوا شی.

تقیہ دین خدا میں سے ہے ، میں نے سوال کیا: کیا دین خدا میں سے ہے ؟تو فرمایا: ہاں خدا کی قسم ؛دین خدا میں سے ہے بے شک یوسف پیامبر(ع) نے فرمایا: اے قافلہ والو بدون شک تم لوگ چور ہو ؛ درحالیکہ خدا کی قسم انہوں نے کوئی چوری نہیں کی تھی .

..............

(1 ) سوره مائدہ ۲۷ ـ ۳۰.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next