تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


آپ کا سقیفہ والوں کے انتخاب پر ظاہرا ً ۲۵ سال تک خاموش رہنا جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ قرآن اور فرمان رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) کے مطابق خلافت آپ کا حق تھا ، لیکن مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خاموش رہنا ،تقیہ تھا . جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی مصلحتوں کو محفوظ کیا . اگر آپ خاموش نہ رہتے تو اس وقت روم والے مسلمانوں کے سر پر کھڑے تھے کہ کوئی موقع ہاتھ آجائے تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کو نابود کرسکیں ، جو مسلمانوں کی وحدت کی وجہ سے ناکام ہوا .آپ کا اپنے زمانے کے حاکموں کے پیچھے نماز پڑھنا بھی تقیہ کے موارد میں سے ہے .

حسنين و زين العابدين (ع) اور تقيہ

یہ دوره زمان خلافت امام حسن(ع) ۲۱ رمضان ۴۱ھ سے لے کر وفات امام سجاد(ع) سن ۹۵ ھ تک تاريكترين اور وحشت ناكترين دوران ہے كه ائمه طاهرين (ع) پرگذری ہے

صلح امام حسن(ع) ربيع الاول سال ۴۱ھ کے بعد اور حكومت اموي کے مستقر ہونے کے بعد ، شيعه اور ان کے پيشواوں کوشدید دباؤ ميں رکھے. معا ويه نے دستور دیا كه خطيب لوگ علي(ع) اور ان کے خاندان کی شان میں گستاخی کریں اور منابر سے ناسزا اور لعن طعن کرے . شهادت اما م حسين(ع) سن ۶۱ھ کے بعد مزید سختی کرنے لگے . حضرت علي(ع) اپني خاص روشن بینی کی وجہ سے اپنے بعد آنے والی تمام واقعات کی پیشگوئي فرمائی . اور اس دوران میں اپنے دوستوں سے تقیہ کرنے کا حکم فرمارہے تھے .کہ جب بھی ان کے مولا کے بارے میں گستاخی کرنے پر مجبور کیا جائے تو اپنی جان بچائیں اور ان کی بات قبول کریں. (3 )

اس دوران میں ائمه(ع) کے سياسي تقيہ کے واضح ترين مصداق ،صلح امام حسن(ع) کوقراردے سکتے ہیں . كه جو خود مهمترين علل اور اسباب میں سے ایک ہے جس کے ذریعے سے مسلمانوں خصوصاً شیعیان حیدر کرار کے خون کی حفاظت تھی . (4 )

اسی طرح امام حسين(ع) کا معاويه کے خلاف جنگ نہ کرنا بھی تقیہ شمار ہو تا ہے .اور اس دوران امام حسن و امام حسين(ع) کا مروان بن حكم ، حاكم مدينه کے پیچھے نماز پڑھنا بھی سياسي و اجتماعي تقيہ کے مصاديق میں سے ہے . (5 )

جب بررسي کرنے لگتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام سجاد(ع)تقیہ کرنے کا ایک خاص طریقہ اپناتے ہیں اور وہ دعا کی شکل میں اسلامی معارف اور تعلیمات کا عام کرنا ہے . جس کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے .

امام باقر(ع) او رتقيہ

امام باقر(ع) کا دور بنی امیہ کے کئی خلفاء(وليد بن عبد الملك ، سليمان بن عبد الملك،عمر بن عبد العزيز، هشام بن عبد الملك) مصادف تھا اس دوران میں سخت گيري نسبتاً كم ہوا . یہی وجہ تھی کہ آپ نے شيعه مکتب کے مختلف کلامي، فقهي اور فرهنگي امور کو تدوين کرکے اسلامي مکاتب کے سامنے رکھ ديا ، اور بہت سے شاگردوں کي تربيت کي .

امام (ع)کے سیاسی تقیہ کے موارد میں سے درج ذیل توریہ والی روایات کو شمار کر سکتے ہیں کہ امام نے ہشام کی مجلس میں اسے یوں خطاب کرنا : يا امير المؤمنين الواجب علي الناس الطاعه لامامهم و الصدق له بالنصيحه.(6 ) اے امير مؤمنین! لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے امام کی اطاعت کرے اور نصیحت اور خیر خواہی کے وقت اسے قبول کرے .اس روایت میں لفظ امام ،غاصب حاكمون ا ور ائمه اهل بيت(ع) دونوں پر قابل تطبيق ہے .بنی امیہ کے بادشاہوں سے تقیہ کرتے ہوئے شاہین اور عقاب کے ذریعے شکار کرنے کو حلال قرار دیا ؛ ان دو پرندوں کے ذریعے خلفای بنی امیہ بہت زیادہ شکار کیا کرتے تھے .امام باقر(ع) کاتقیہ کرنے پر یہ روایت صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے . (7 )



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next