تقيہ ايک قرآني اصول

تأليف :غلام مرتضي انصاري


لیکن امام(ع) نے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھا ، یہاں تک کہ بہت سارے شیعوں کوبھی ان کی ولادت کا علم نہیں تھا جو سن ۲۵۵ه میں متولد ہوا تھا (25 ) کیونکہ بہت زياده خطر تھا . اسی لئے امام (ع) کی شہادت کے بعد آپ کا بھائی جعفر جو ایک بےایمان انسان تھا ، آپ کی ساری میراث اپنے نام کردیا .کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ امام کا کوئی وارث بھی ہے . (26 )

امام(ع) کے کچھ سیاسی تقیہ کے موارد اپنے چاہنے والوں کے نام لکھا ہوا خط سے واضح ہوتا ہے، فرماتے ہیں کہ:

۱ـ جب میں تمھارے سامنے سے گذرے تو مجھے سلام نہ کرنا .اور اپنے ہاتھوں سے میری طرف اشارہ نہ کرنا ، کیونکہ تم لوگ امان میں نہیں ہو .ممکن ہے اس طرح اپنے آپ کو درد سر میں ڈالنے سے محفوظ رکھیں .

۲ـ امام(ع) جب اپنے اصحاب سے ملاقات کرتے تھے تو ان کیلئے مخفی طور پر پیغام بھیجتے تھے کہ فلان جگہ جمع ہو جائیں ، تاکہ ایک دوسرے کی دیدار ہو سکے . .امام(ع) سخت سياسي دباؤ کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں کو تقیہ کرنے پر زیادہ زور دیتے تھے .جیسا کہ فرمایا:

وسع لهم في التقيہ يجاهرون باظهار موالاة اولياءالله و معادات اعداءالله اذا قدروا و يسترونها اذا عجزوا.

خدا تعالی نے شیعیان حیدر کرار کو تقیہ میں راحت اور آرام کو پوشیدہ رکھا ہے کہ اپنی طاقت اور قدر کو آشکار کرنے کا وقت آتا ہے تو اللہ کے چاہنے والوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا اعلان کریں، اور جب بھی دوسرے گروہ کے مقابلے میں کمزور واقع ہوجائے تو اس دوستی اور دشمنی کو چھپائیں ؛ پھر فرمایا: أَلَا وَ إِنَّ أَعْظَمَ فَرَائِضِ اللَّهِ عَلَيْكُمْ بَعْدَ فَرْضِ مُوَالاتِنَا وَ مُعَادَاةِ أَعْدَائِنَا اسْتِعْمَالُ التَّقِيَّةِ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَ إِخْوَانِكُمْ وَ مَعَارِفِكُمْ وَ قَضَاءُ حُقُوقِ إِخْوَانِكُمْ فِي اللَّهِ أَلَا وَ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ كُلَّ ذَنْبٍ بَعْدَ ذَلِكَ وَ لَا يَسْتَقْصِي فَأَمَّا هَذَانِ فَقَلَّ مَنْ يَنْجُو مِنْهُمَا إِلَّا بَعْدَ مَسِّ عَذَابٍ شَدِيدٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ مَظَالِمُ عَلَى النَّوَاصِبِ وَ الْكُفَّارِ فَيَكُونَ عَذَابُ هَذَيْنِ عَلَى أُولَئِكَ الْكُفَّارِ وَ النَّوَاصِبِ قِصَاصاً بِمَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحُقُوقِ وَ مَا لَهُمْ إِلَيْكُمْ مِنَ الظُّلْمِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَ لَا تَتَعَرَّضُوا لِمَقْتِ اللَّهِ بِتَرْكِ التَّقِيَّةِ وَ التَّقْصِيرِ فِي حُقُوقِ إِخْوَانِكُمُ الْمُؤْمِنِينَ. (27 )

آگاہ رہو ! ہمارے ساتھ دوستی اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ نفرت اور دشمنی کے بعد خدا تعالی کے واجبات میں سے سب سے بڑا واجب تقیہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے دوستوں کی حفاظت کرے اور اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرے ، آخر میں فرمایا: تقوی الہی کو اپنا پیشہ قرار دو اور اپنے آپ کو تقیہ نہ کرکے اور اپنے مؤمن بھائیوں کے حقوق ادا نہ کرکے غضب الہی کا مستحق نہ بنیں .

۳ـ آپ کے اصحاب میں سے ایک چاہتا تھا کہ آپ اعلانیہ طور پر حجت خدا کی حیثیت سے معرفی ہوجائے .لیکن امام(ع) نے فرمایا:خاموش رہو ! یا اسے چھپا ئے رکھو یا آشکار کرکے موت کیلئے تیار ہوجاؤ .(28 )

حضرت حجت(عج) اور تقيہ

آنحضرت(عج) کی امامت کاپہلا دور جو غيبت صغري کا دورکہلاتا ہے اور سنہ (۲۶۰ ـ ۳۲۹)ھ پر مشتمل ہے .اس دوران میں امام اپنے چار خاص نائبین کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے . ان چار نائبین کے نام لیتے ہوئے امام کے ساتھ ان کا ارتباط اور تقیہ کے موارد کو بیان کریں گے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next