وہابیت کے چہرے



شائد یہ اسی سر زمین کا اثر تھا کہ محمد بن عبد الوہاب کے نظریات یہاں پروان چڑھنے لگے اور وہاں کے حاکم محمد بن سعود اور اس کی رعایا نے ان کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔

اس شخص کواگرچہ اجتہاد سے کہیں دور کا واسطہ بھی نہیں تھا پھر بھی یہ ہرمسئلہ میں ایک مسلم الثبوت مجتہد کی طرح دخل اندازی کرتا رہتا تھا اور اسے گذشتہ یا اپنے ہم عصر مجتہد ین کے اقوال اور نظریات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔

 ÛŒÛ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رھے ہیں بلکہ خود موصوف Ú©Û’ بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب جو اپنے بھائی Ú©Ùˆ دوسروں سے بہتر جانتے اور پہچانتے تھے یہ الفاظ ان Ú©Û’ ہیں، انھوں Ù†Û’ اپنے بھائی Ú©ÛŒ گمراہی،انحراف اور اس Ú©ÛŒ باطل پر مبنی جھوٹی تبلیغ Ú©Û’ بارے میں ایک کتاب تالیف Ú©ÛŒ Ú¾Û’ جس میں بہت ہی مختصر اور جامع انداز میں وہابیت اور اس Ú©Û’ موجد Ú©Û’ بارے میں وہ یوں رقمطراز ہیں:

”آج لوگ ایسے آدمی کے ہاتھوں امتحان میں مبتلا ھوگئے ہیں جو کتاب و سنت کی طرف اپنی نسبت دیتا ھے اور انہیں دونوں سے استنباط کا دعویٰ کرتا ھے اور چاھے جو شخص بھی اس کی مخالفت کرلے اسے کوئی پرواہ نہیں ھے وہ اپنے مخالفوں کو کافر سمجھتا ھے جب کہ اس کے اندر اجتہاد کی کوئی ایک علامت بھی موجود نہیں ھے بلکہ خدا کی قسم اس کے اندر اجتہاد کی علامت کا دسواں حصہ بھی موجود نہیں ھے اس کے باوجود اس کی باتیں بعض نا دانوں اور (سادہ لوح عوام) پر اثر انداز ھو رہی ہیں جس کے بعد ”انا للہ و انا الیہ راجعون“ ہی کہا جاسکتاھے۔

مزید تفصیل کے لئے محمود شکری آلوسی کی تالیف تاریخ نجد، شیخ سلیمان بن عبد الوہاب کی کتاب الصواعق الالہٰیہ فی الرد علی الوہابیہ، ص۷،یا فتنہٴ وہابیت،ص۵ملاحظہ فرمائیں۔

 

 

دوسری فصل

 

وہابی نظریات کی بنیادیں

 

وہابیت Ú©ÛŒ دو بنیادیں ہیں:  ظاہری اور باطنی  (خفیہ)

ان کا ظاہری دعویٰ تو یہی ھے کہ یہ لوگ کامل اور خالص توحید کے مبلغ اور شرک و بت پرستی کے خلاف جنگ و جہاد کے علمبردار ہیں۔ اگرچہ ہر شخص بخوبی جانتا ھے کہ تاریخ وہابیت میں اس کا کوئی عملی نمونہ نہیں دکھائی دیتا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next