(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



”کيا تم جانتے ھوں کہ يوسف اور اس کے بھائيوں کے ساتھ تم نے کيا برتاؤ کيا، کيا تمھارا يہ کام کسي جھالت و ناداني کي وجہ سے تھا؟ تمام بھائي يہ سوال سن کر حيران ھوگئے اور سوچنے لگے کہ آخر کار يہ قبطي ذات سے تعلق رکھنے والا بادشاہ يوسف کو کس طرح جانتا ھے، اور ان کے واقعہ سے کيسے باخبر ھوا، اسے برادران يوسف کے بارے ميں کيسے معلوم ھوا اور يہ يوسف کے ساتھ ھوئے برتاؤکو کيسے جانتا ھے، حالانکہ يہ واقعہ کو صرف ان دس بھائيوں کے علاوہ کوئي نھيں جانتا تھا، يہ کيسے اس واقعہ سے آگاہ ھوا؟

يہ لوگ کافي دير تک کچھ جواب نہ دے سکے، اور گزشتہ سفر کے واقعات کو ياد کرنے لگے، عزيز مصر سے سني ھوئي باتيں ان کے دماغ ميں گردش کررھي تھيں کہ اچانک سب نے ايک ساتھ مل کر سوال کيا: کيا آپ ھي يوسف ھيں؟

عزيز مصر نے جواب ديا: ھاں، ميں ھي يوسف ھوں اور يہ ميرا بھائي (يامين) ھے، خدا وندعالم نے ھم پر لطف وکرم کيا کہ ايک مدت کے بعد دو بچھڑے بھائيوں کو ملاديا ، جو شخص بھي صبر کرتا ھے اور پرھيزگاري کا راستہ اپناتا ھے تو خدا اس کو نيک جزا سے نوازتا ھے اور اس کو اپني منزل مقصود تک پہنچاديتا ھے۔

ادھر بھائيوں کے دلوں ميں ايک عجيب و غريب خوف و وحشت تھا اور حضرت يوسف کي جانب سے شديد انتقام کو اپنے نظروں کے سامنے مجسم ديکھ رھے تھے۔

جناب يوسف کي بے پناہ قدرت ، اور بھائيوں ميں بے انتھا ضعف و کمزوري، جب يہ دوبے انتھا طاقت و کمزوري ايک جگہ جمع ھوجائيں تو کيا کچھ نھيں ھوسکتا؟!!

بھائيوں نے ابراھيمي قانون کے مطابق اپنے کو سزا کا مستحق ديکھا ،محبت اور عطوفت کي نظر سے اپنے کو يوسف کي سزا کا مستحق مانا، اس وقت ان کي حالت ايسي تھي گويا ان پر آسمان گرنے والا ھو، ان کے بدن لرز رھے تھے، زبان سے قوت گويائي سلب ھوچکي تھي، ليکن انھوں نے کمر ھمت باندھ کر اپني تمام طاقت کو جمع کيا اور اپنا آخري دفاع ان لفظوں ميں کرنے لگے: ”ھم اپنے گناھوں کا اعتراف کرتے ھيں ليکن آپ سے عفو و بخشش کي درخواست کرتے ھيں، بے شک خداوندعالم نے آپ کو ھم پر برتري اور فضيلت دي ھے، ھم لوگ خطاکار ھيں“۔ اور يہ کہہ کر خاموش ھوگئے، ليکن جناب يوسف کي زبان سے بھي ايسے الفاظ جاري ھوئے جس کي انھيں بالکل اميد نہ تھي۔

جناب يوسف عليہ السلام نے کھا: ميں نے تم لوگوں کو معاف کرديا، تمھيں کوئي کچھ نھيں کھے گا، کوئي سزا نھيں ملے گي، ميں کوئي انتقام نھيں لوں گا، اور خداوندعالم بھي تمھارے گناھوں سے درگزر کرے اور تم کو بخش دے ۔

جي ھاں! الٰھي نمائندے اسي طرح ھوتے ھيں،لطف و کرم اور بخشش سے پيش آتے ھيں، انتقام کي آگ ان کے دلوں ميں نھيں ھوتي، کينہ نھيں ھوتا، اپنے دشمن کے لئے بھي خدا سے مغفرت کي درخواست کرتے ھيں، ان کا دل خدا کے بندوں کي نسبت مھر و محبت سے لبريز ھوتا ھے۔

جناب يوسف عليہ السلام نے اپنے بھائيوں کو سزا نہ دينے سے مطمئن کرکے فرمايا: اب تم لوگ شھر کنعان کي طرف پلٹ جاؤ اور ميرا پيراہن اپنے ساتھ ليتے جاؤ ،اس کو ميرے باپ کے چھرے پر ڈال دينا، جس سے ان کي بينائي پلٹ آئے گي، اور اپنے تمام گھروالوں کو يھاں مصر لے کر چلے آؤ۔

يہ دوسري مرتبہ يوسف Ú©Û’ بھائي آپ Ú©Û’ پيراہن Ú©Ùˆ باپ Ú©ÙŠ خدمت ميں Ù„Û’ کر جارھے ھيں، پھلي مرتبہ اسي قميص Ú©Ùˆ موت کا پيغام بناکر Ù„Û’ گئے تھے، ÙŠÚ¾ÙŠ قميص فراق Ùˆ جدائي Ú©ÙŠ ايک داستان تھي ،اور  ايک برے حادثہ Ú©ÙŠ خبر تھي، ليکن اس مرتبہ ÙŠÚ¾ÙŠ قميص حيات Ú©ÙŠ مژدہ اور ديدار Ùˆ وصال Ú©ÙŠ بشارت اور سعادت Ùˆ خوشبختي کا پيغام Ú¾Û’Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next