(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



ابولبابہ Ù†Û’ کھا: يا رسول اللہ! کيا مجھے اس بات Ú©ÙŠ اجازت Ú¾Û’ کہ ميں اپنا سارا مال راہ خدا ميں خيرات کردوں؟ آنحضرت  صلي اللہ عليہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ فرمايا: Ù†Ú¾ÙŠÚº ØŒ اس Ú©Û’ بعد انھوں Ù†Û’ اپنے دو تھائي مال Ú©Û’ خيرات کرنے Ú©ÙŠ اجازت طلب Ú©ÙŠØŒ ليکن آنحضرت  صلي اللہ عليہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ اس Ú©ÙŠ بھي اجازت نہ دي، انھوں نےآدھا مال خيرات کرنے Ú©ÙŠ اجازت طلب Ú©ÙŠ ليکن آنحضرت  Ù†Û’ اس Ú©ÙŠ بھي اجازت نہ دي، آخر کار انھوں Ù†Û’ ايک تھائي مال خيرات کرنے Ú©ÙŠ اجازت مانگي تو آنحضرت  صلي اللہ عليہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم  Ù†Û’ اجازت مرحمت فرمادي۔[39]

ايک لوھار کي توبہ

اس عجيب و غريب واقعہ کا راوي کھتا ھے: ميں شھر بصرہ کے لوھاربازار ميں وارد ھوا، ايک لوھار کو ديکھا کہ لوھے کو سرخ کئے ھوئے ھے او راس کو اپنے ھاتھ سے پکڑے ھوئے ھے ،اوراس کا شاگرد اس پر ھتوڑا ماررھا ھے۔

مجھے بھت تعجب ھوا کہ سرخ لوھا اس کے ھاتھ کو نھيں جلارھا ھے؟ اس لوھار سے اس چيز کا سبب معلوم کيا، اس نے بتايا: ايک سال بصرہ ميں شديد قحط پڑا، يھاں تک کہ لوگ بھوکے مرنے لگے، ايک روز ميري پڑوسن جو جوان تھي ميرے پاس آئي او رکھا:ميرے بچے بھوک سے مرے جارھے ھيں ، ميري مدد کر، جيسے ھي ميں نے اس کے جمال اور خوبصورتي کو ديکھا تو اس کا عاشق ھوگيا، ميں نے اس کے سامنے ناجائز پيشکش رکھي، وہ عورت شرماکر جلدي سے ميري گھر سے نکل گئي۔

چند روز کے بعد وہ عورت دوبارہ آئي اور کھا: اے مرد! ميرے يتيم بچوں کي جان خطرے ميں ھے، خدا سے ڈر اور ميري مدد کردے، ميں نے د وبارہ پھر اپني خواہش کي تکرار کي اس مرتبہ بھي وہ عورت شرمندہ ھوکر ميرے گھر سے نکل گئي۔

دو دن بعد پھر ميرے پاس آئي اور کھا: اپنے يتيم بچوں کي جان بچانے کے لئے ميں تسليم ھوں، ليکن مجھے ايسي جگہ لے چل جھاں تيرے اور ميرے علاوہ کوئي نہ ھو، چنانچہ ميں اس کو ايک مخفي جگہ لے کر گيا، جيسے ھي اس کے نزديک ھونا چاھتا تھا وہ لرز اٹھي ، ميں نے کھا: تجھے کيا ھوگيا ھے؟ اس نے کھا: تو نے ايسي جگہ لانے کا وعدہ کيا تھا جھاں کوئي د يکھنے والا نہ ھو، ليکن يھاں تو اس ناجائز کام کوپانچ ديکھنے والے ديکھ رھے ھيں، ميں نے کھا: اے عورت! اس گھر ميں کوئي نھيں ھے، تو پانچ افراد کي بات کررھي ھے، اس نے کھا: دو فرشتے ميرے موکل اور دو فرشتے تيرے موکل اور ان چار فرشتوں کے علاوہ خداوندمتعال ميں ھمارے اس کام کو ديکھ رھا، ميں کس طرح ان کے سامنے اس بُرے کام کا ارتکاب کروں؟!!

اس عورت کي باتوں نے مجھ پر اتنا اثر کيا کہ ميرا بدن لرز اٹھا ، اس شرمناک کام سے اپنے کو آلودہ ھونے سے بچاليا، اس کو چھوڑ ديا اور اس کي مدد کي ، يھاں تک قحط کے خاتمہ تک اس کي اور اس کے يتيم بچوں کي جان بچالي، اس نے بھي ميرے حق ميں اس طرح دعا کي:

پالنے والے! جيسے اس مرد نے اپني شھوت کي آگ کو خاموش کرديا تو بھي اس پر دنيا و آخرت کي آگ کو خاموش کردے۔ چنانچہ اسي عورت کي دعا ھے کہ دنيا کي آگ مجھے نھيں جلاتي ۔[40]

قوم يونس کي توبہ

سعيد بن جبيراور ديگر مفسرين نے قوم يونس کے واقعہ کو اس طرح بيان کيا ھے:

قوم يونس نينوا او رموصل کے علاقہ ميں زندگي بسر کيا کرتي تھي۔اور اپنے نبي جناب يونس کي دعوت کو قبول نھيں کيا تھا، چنانچہ حضرت يونس انھيں ۳۳/ سال تک خدا پرستي اور گناھوں سے دوري کا دعوت ديتے رھے ليکن دو افراد کے علاوہ کوئي ايمان نہ لايا، ان ايمان لانے والوں ميںايک کا نام ”روبيل“ اور دوسرے کا نام ”تنوخا“ تھا۔

روبيل ايک صاحب علم و حکمت گھرانہ سے تعلق رکھتا تھا اور اس کي جناب يونس سے دوستي تھي، تنوخا ايک عابد و زاہد شخص تھا، جو جنگل سے لکڑياں جمع کرکے ان کو فروخت کيا کرتا تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next