(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



حر Ù‘  ،امام حسين عليہ السلام Ú©ÙŠ طرف روانہ تھے ھاتھ اپنے سر پر رکھے ھوئے کھتے جاتے تھے: پالنے والے!  تيري بارگاہ ميں توبہ کرتے ھوئے حاضر ھورھا Ú¾ÙˆÚº لہٰذا ميري توبہ قبول فرما کيونکہ ميں Ù†Û’ تيرے ا ولياء اور تيرے پيغمبر Ú©ÙŠ آل Ú©Ùˆ رنجيدہ خاطر کيا Ú¾Û’Û”

طبري کھتے ھيں: جيسے ھي حر ّ نزديک ھوا، اوراس کو پہچان ليا گيا، اس نے حضرت امام حسين (عليہ السلام) کو سلام کيا، اور عرض کي: اے فرزند رسول! خدا مجھے آپ پر قربان کرے، ميں نے آپ کا راستہ روکا اور آپ کو واپس نہ پلٹنے ديا، اور آپ کے ساتھ ساتھ چلتا رھا، تاکہ آپ کسي محفوظ جگہ ميں پناہ گاہ تلاش نہ کرليں، يھاں تک کہ آپ پر سختي کي اور آپ کو اس کربلا ميں روک ليا، اور يھاں بھي آپ پر سختي کي گئي، ليکن اس خدا کي قسم جس کے علاوہ کوئي خدا نھيں ، ميرا يہ گمان نھيں تھا کہ يہ قوم آپ کي باتوں کو نھيں مانے گي، اور آپ سے جنگ کے لئے تيار ھوجائے گي۔

ميںشروع ميں يہ سوچتا تھا کہ کوئي بات نھيں، ان لوگوں کے ساتھ سازش سے کام ليتا رھوں تاکہ کھيں يہ نہ سمجھ ليں کہ وہ ان کا مخالف ھوتا جارھا ھے، ليکن اگر خدا کي قسم مجھے يہ گمان ھوتا کہ يہ لوگ آپ کي باتوں کو قبول نھيں کريں گے، تو ميں آپ کے ساتھ ايسا سلوک نہ کرتا، اب ميں آپ کي خدمت ميں توبہ کرتے ھوئے اور جانثار کرتے ھوئے حاضر ھوں، تاکہ خدا کي بارگاہ ميں توبہ کروں اور اپني جان آپ پر قربان کردوں۔ميں آپ پر قربان ھونا چاھتا ھوں، کيا ميري توبہ قبول ھوسکتي ھے؟ !

اس وقت امام عليہ السلام نے فرمايا: ھاں خداوندعالم توبہ قبول کرنے والا ھے، تيري توبہ کو قبول کرلے گا اور تجھے بخش دے گا،تيرا نام کياھے؟ اس نے کھا: حر ّ بن يزيد رياحي، امام عليہ السلام نے فرمايا:

حر ّ جيسا کہ تمھاري ماں نے تمھارا نام رکھا تم دنيا و آخرت دونوں ميں ھي حر ّ(آزاد) ھو[25]

عصر عاشور دوبھائيوں کي توبہ

اسلام ميں توبہ يعني گناھگار کا نادم اور پشيمان ھونا، اپنے کئے ھوئے سے پشيمان ھوکر خدا کي طرف پلٹ جانا، اور يہ راستہ ھميشہ انسان کے لئے کھلا ھوا ھے؛ کيونکہ مکتب الٰھي اميد و رجاء کا دين ھے، مھر و محبت ،رحمت کا سرچشمہ اور عشق و وفا کا مرکز ھے۔ امام حسين عليہ السلام رحمت پروردگار کا مکمل آئينہ دار ھيںمخلوق پر رحم و کرم، دوست پر رحم و کرم اور دشمن پر (بھي) رحم و کرم، امام حسين کا وجود مھر و محبت کا مجسمہ تھا آپ کي گفتگو محبت تھي رفتار محبت تھي ،جس وقت سے يزيدي لشکر آپ کے ساتھ ھوا اسي وقت سے آپ کي کوشش رھي کہ ان کو ہدايت فرمائيں ، اور وہ صراط مستقيم کو اپناليں، حتي الامکان آپ نے راہنمائي فرمائي اور ان کے سلسلے ميں خير خواھي سے کام ليتے رھے۔

جنگ سے پھلے کوشش کي، ميدان جنگ ميں کوشش کي اور اپني رفتار و گفتار سے کوشش کي، جس کا نتيجہ يہ ھوا کہ جن لوگوں ميں ہدايت کي صلاحيت تھي ان کو ہدايت کي اور ان کو جہنم سے نکال کر مستحق بہشت کرديا۔

امام حسين عليہ السلام کي آخري دعوت اس وقت تھي جب آپ تن تنھا رہ گئے جس وقت آپ کے تمام اصحاب واعزاء شھيد ھوگئے ،اس وقت کوئي نہ تھا ،امام عليہ السلام نے استغاثہ بلند کيا اور فرمايا: کيا ھمارا کوئي ناصر و مددگار نھيں ھے؟ کيا کوئي ھے جو پيغمبر کے اھل حرم کا دفاع کرے:

”اَلاَ نَاصِرٌ يَنْصُرُنَا؟ اَمَا مِنْ ذَابٍّ يَذُبُّ عَنْ حَرَمِ رَسُولَ الله“۔

اس آواز نے سعد بن حرث انصاري اور اس کے بھائي ابو الحتوف بن حرث کو خواب غفلت سے بيدار کرديا، يہ دونوں انصار سے تعلق رکھتے تھے، نيز ان کا تعلق قبيلہ خزرج سے تھے ليکن آل محمد سے کوئي سروکار نہ تھا،دونوں دشمنان علي ميں سے تھے، جنگ نھروان ميں ان کا نعرہ يہ تھا: ”حکومت کا حق صرف خداوندعالم کو ھے، گناھگار کو حکومت کرنے کا کوئي حق نھيں ھے“۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next