(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



(( وَعَلَي الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّي إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْھم الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْھم اٴَنفُسُھم وَظَنُّوا اٴَنْ لاَمَلْجَاٴَ مِنْ اللهِ إِلاَّ إِلَيْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْھم لِيَتُوبُوا إِنَّ اللهَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ))۔[23]

”اوراللہ Ù†Û’ ان تينوں پر بھي رحم کيا جو جھاد سے پيچھے رہ گئے يھاں تک کہ زمين جب اپني وسعتوں سميت ان پر تنگ Ú¾Ùˆ گئي اور ان Ú©Û’ دم پر بن گئي اور انھوں Ù†Û’ يہ سمجھ ليا کہ اب اللہ Ú©Û’ علاوہ کوئي پناہ گاہ Ù†Ú¾ÙŠÚº Ú¾Û’ØŒ تو اللہ Ù†Û’ ان Ú©ÙŠ طرف توجہ فرمائي کہ وہ توبہ کرليں اس لئے کہ وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ھے“۔ 

حر ّ بن يزيد رياحي کي توبہ

حر ّ بن يزيد رياحي پھلے امام حسين عليہ السلام کے ساتھ نہ تھا، ليکن آخر کار امام حسين عليہ السلام کے ساتھ ھوگئے، حر ّايک جوان اور آزاد انسان تھا، اس بے معني جملہ ”المامور معذور “(يعني مامور معذور ھوتا ھے) پر عقيدہ نھيں تھا، ظالم حکمراں کے حکم کي مخالفت کي اور اس سے مقابلہ کے لئے قيام کيا، اور استقامت کي يھاں تک کہ شھادت کے درجہ پر فائز ھوگئے۔

حر ّکا شمار کوفہ ميں لشکر يزيد کے عظيم کے سرداروں ميں ھوتا تھا اور عرب کے مشھور خاندان سے اس کا تعلق تھا، امير کوفہ نے اس کي موقعيت سے فائدہ اٹھايااور حر کو ايک ہزار کے لشکر کا سردار بناديا اور حضرت امام حسين (عليہ السلام) کي طرف روانہ کرديا تاکہ امام کو گرفتار کرکے کوفہ لے آئے۔

کھتے Ú¾ÙŠÚº: جس وقت حر Ú©Ùˆ ّلشکر Ú©ÙŠ سرداري Ø­Ú©Ù… نامہ ديا گيا اور ابن زياد Ú©Û’ محل سے باھر نکلا ØŒ تو اس Ú©Ùˆ ايک آواز سنائي دي: اے حر ّتيرے لئے جنت Ú©ÙŠ بشارت Ú¾Û’ØŒ حر Ù†Û’ مڑکر ديکھا تو کوئي Ù†Ú¾ÙŠÚº دکھائي ديا، چنانچہ اس Ù†Û’ خود سے کھا: يہ کيسي  بشارت Ú¾Û’ØŸ جو شخص حسين سے جنگ Ú©Û’ لئے جارھا ھواس Ú©Û’ لئے يہ جنت Ú©ÙŠ بشارت کيسے؟!

حر ّايک مفکر اور دقيق انسان تھا کسي کي اندھي تقليد نھيں کرتا تھا وہ ايسا شخص نہ تھا جو مقام منصب کے لالچ ميں اپنے ايمان کو بيچ ڈالے، بعض لوگ جتنے بلند مقام پر پہنچ جاتے ھيں وہ حاکم کي اطاعت گزاري ميں اپني عقل کو بالائے طاق رکھ ديتے ھيں،اپنے ايمان کو بيچ ڈالتے ھيں، اور صحيح تشخيص نھيں دے پاتے، اوپر والے حاکم جس چيز کو صحيح کھتے ھيں وہ بھي صحيح کہہ ديتے ھيں، اور جس چيز کو بُرا مانتے ھيں، اس کو برا شمار کرنے لگتے ھيں، وہ گمان کرتے ھيں کہ اوپر والے حاکم خطا و غلطي نھيں کرتے ،جو کچھ بھي کھتے ھيں صحيح ھوتا ھے، ليکن حر ّايسا نھيں تھا، غور و فکر کرتا تھا اور اندھي تقليد اور بے جا اطاعت نھيں کرتا تھا۔

صبح کے وقت حر ّکي سرداري ميں ايک ہزار کا لشکر کوفہ سے روانہ ھوا، عربستان کے بيابان کا راستہ اختيار کيا ايک گرمي کے عالم ميں روز ظھر کے وقت امام حسين (عليہ السلام) سے ملاقات ھوگئي۔

حر ّ پياسا تھا، اس کا لشکر بھي پياسا تھا ،گھوڑے بھي پياسے تھے اس علاقہ ميں کھيں کھيں پاني بھي نھيں ملتا تھا ايسے موقع پر اگر حضرت امام حسين عليہ السلام پاني نہ پلاتے تو وہ اور اس کا لشکر خود بخود مرجاتا، اور بغير جنگ کئے ايک کاميابي حاصل ھوجاتي، ليکن آپ نے ايسا نہ کيا اور دشمن سے دشمني کرنے کے بجائے اس کے ساتھ نيکي کي اور اپنے جوانوں سے فرمايا:

حر ّ پياسا ھے کہ اس کو پاني پلاؤ، اس کا لشکر بھي پياسا ھے اس کو بھي پاني پلاؤ اور ان کے گھوڑے بھي پياسے ھيں انھيں بھي سيراب کرو۔ جوانوں نے امام عليہ السلام کي اطاعت کي، حر اوراس کے لشکر يھاں تک کہ ان کے گھوڑوں کوبھي سيراب کيا ۔

ادھر نماز کا وقت ھوگيا موذن نے اذان دي ،امام عليہ السلام نے موٴذن سے فرمايا: اقامت کھو، اس نے اقامت کھي،امام حسين عليہ السلام نے حر ّ سے فرمايا:کيا تم اپنے لشکر والوں کے ساتھ نماز ادا کروگے؟ ! حر ّ نے کھا: نھيں، ميں تو آپ کے ساتھ نماز پڑھوں گا!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next