(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



کيا حسين گناھگار ھيں ليکن يزيد گناھگار نھيں ھے؟

يہ دونوں بھائي عمر سعد کے لشکر ميں (امام ) حسين (عليہ السلام) سے جنگ کرنے اور اور آپ کے قتل کے لئے کوفہ سے کربلا آئے تھے، روز عاشورا جب جنگ کا آغار ھوا تو يہ دونوں يزيد کي فوج ميں تھے،جنگ شروع ھوگئي خون بہنے لگا ، ليکن يہ لوگ يزيد کے لشکر ميں تھے، امام حسين عليہ السلام تن تنھا رہ گئے يہ لوگ يزيد کي فوج ميں تھے، ليکن جس وقت امام حسين عليہ السلام نے استغاثہ بلند کيا تو يہ لوگ خواب غفلت سے بيدار ھوگئے ،اور خود سے کہنے لگے: حسين فرزند پيغمبر ھيں، ھم روز قيامت ان کے نانے کي شفاعت کے اميدوار ھيں، يہ سوچ کر دونوں يزيد کي فوج سے نکل آئے اور حسيني بن گئے، جيسے امام حسين کے زير سايہ آئے تو يزيدوں پر حملہ کرديا اور ان سے جنگ کي، چند لوگوں کو زخمي کيا اور چند لوگوں کو واصل جہنم کيا يھاں تک کہ خود بھي جام شھادت نوش کرليا۔[26]

علامہ کمرہ اي جن کي طرف سے حقير (موٴلف) صاحب اجازہ بھي ھے اپني عظيم الشان کتاب ”عنصر شجاعت“ ميں فرماتے ھيں:

جس وقت بچوں اور اھل حرم نے امام حسين عليہ السلام کي صدائے استغاثہ سني:

”اَلانَاصِرٌ يَنْصُرْنَا۔۔۔؟“۔

تو خيام حسيني سے رونے اور چلانے کي آواز بلند ھوئي، سعد اور اس کے بھائي ابو الحتوف نے جيسے ھي اھل حرم کے نالہ و فرياد کي دل خراش آوزايں سنيں تو ان دونوں نے امام حسين عليہ السلام کا رخ کيا۔

يہ ميدان جنگ ميں تھے اپنے ھاتھوں ميں موجود شمشير سے يزيديوں پر حملہ ور ھوگئے،اور جنگ کرنا شروع کي، امام کي طرف سے تھوڑي دير تک جنگ کي اور بعض لوگوں کوواصل جہنم کيا ، آخر کار دونوں شديد زخمي ھوگئے اس کے بعد دونوں ايک ھي جگہ پرشھيد ھوگئے۔[27]

ان دو بھائيوں کے حيرت انگيز واقعہ ميں اميدکي کرن کو ديکھنے کو ملتي ھے، اميد کي کرن نااميدي کو مارے ڈالتي ھے، اور غيب کي تازہ تازہ خبريں ديتي ھے، انبياء کے لئے اچانک بشارتيں لے کر آتي ھے درحقيقت يہ (اميد) انبياء کے لئے نبي ھے۔

اميد کي کرن کے ذريعہ سے انبياء عليھم السلام ھر وقت غيب کي باتوں سے پردہ برداري کے منتظر رھتے تھے، ھر وقت ايک نئي کرن سے نااميد نھيں ھوتے تھے، يھاں تک کہ آخري وقت ميں بھي، گناھگار کي آخري سانس کو مجرم کے ساتھ حساب نھيں کرتے جب تک کہ مجرم مکمل طور پر جرم انجام نہ دے لے، خداوندعالم کي طرف سے ايک نئي عنايت کے منتظر رھتے ھيں، چونکہ خداوندعالم کي مخصوص عنايات سب پر مخفي ھے۔

جناب يعقوب عليہ السلام نے ايک عجيب وغريب فراق کا تحمل کيا، کئي سال گزر گئے يھاں تک کہ آپ کي آنکھيں سفيد ھوگئيں، ليکن جناب يوسف کے بارے ميں کوئي خبر نہ ملي، بھيڑئے کے کھالينے کي خبر سننے کے ساتھ ساتھ اپنے گم شدہ يوسف کي واپسي کے لئے خدا سے اميد لگائے رھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next