(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



اچانک کيا ديکھا کہ اس رقاصہ نے اپنا سرو صورت چھپانا شروع کرديا، ساز و طبل کو زمين پر دے مارا اور سجدہ ميں گرپڑي، اور دلسوز آواز ميں ذکر ربّ کرنے لگي: يا ربّ ،يا ربّ ،يا ربّ ، اس نے توبہ او راستغفار کيا، دوسرے لوگ بھي خواب غفلت سے بيدار ھوئے اور اس ماجرے کو ديکھ رونے لگے، ان تمام لوگوں نے اس عظيم الشان عالم دين کے سامنے توبہ کي اور اپنے تمام گناھوں سے دوري اختيار کرلي۔[44]

ھارون الرشيد کے بيٹے کي توبہ

صاحب کتاب ”ابواب الجنان“ ، واعظ سبزواري اپني کتاب ”جامع النورين“ (ص۳۱۷) اور آيت اللہ نھاوندي نے اپني کتاب ”خزينة الجواھر“ (ص۲۹۱) ميں تحرير کيا ھے : ھارون کا ايک بيٹا نيک و صالح تھا ايک پاکيزہ گوھر ،ناپاک صلب سے جيسے کوئي مرواريد ھو، جو اپنے زمانہ کے عابد و زاہد لوگوں کي بزم سے فيضياب ھوتا تھا جن کي صحبت کے اثر سے دنياوي زرق و برق سے کنارہ کشي کئے ھوئے تھا، باپ کے طور طريقہ اور مقام و رياست کے خواب کو ترک کئے ھوئے تھا، اس نے اپنے دل کو پاک و صاف کررکھا تھاحقيقت کي بلند شاخوں پر اپنا گھر بنائے ھوئے تھا اور دنياوي چيزوں سے آنکھيں بند کئے تھا۔

ھميشہ قبرستان ميں جاتا اور ان کو عبرت کي نگاھوں سے ديکھتا اور قبروں کو ديکھ ديکھ کر زار و قطار آنسو بھاتا تھا!

ايک روز ھارون کا وزير محفل ميں تھا اثناء محفل اس کا لڑکا وھاں سے گزرا جس کا نام قاسم اور لقب موٴتمن تھا، جعفر برمکي ہنسنے لگے ، ھارون نے ہنسنے کي وجہ معلوم کي تو جواب ديا: اس لڑکے کي حالت پر ہنستا ھوں جس نے تجھے ذليل کرديا ھے، کاش يہ تمھارا بيٹا نہ ھوتا! يہ ديکھئے اس کے کپڑے ،چال چلن عجيب ھے اور يہ غريب اور فقيروں کے ساتھ اٹھتا بيٹھتا ھے، يہ سن کر ھارون بول اٹھا: اس کو حق ھے کيونکہ ھم نے ابھي تک اسے کوئي مقام و منصب ديا ھي نھيں ، کيا اچھا ھو کہ ايک شھر کي حکومت اس کو ديدي جائے، فرمان صادر کرديا اور اس کو اپنے پاس بلايا، اس کو نصيحت کرتے ھوئے اس طرح کھا: ميں چاھتا ھوں تجھے کسي شھر کي حکومت پر منصوب کروں، کس علاقہ کي حکومت چاھتے ھو؟

اس نے کھا: اے پدر! مجھے اپنے حال پر چھوڑديجئے، مجھے خدا کي عبادت کا شوق حکومت کے شوق سے کھيں زيادہ ھے، يہ سوچ لو کہ ميں تمھارا بيٹا نھيں ھوں۔

ھارون نے کھا: کيا حکومتي لباس ميں خدا کي عبادت نھيں کي جاسکتي؟ کسي علاقہ کي حکومت قبول کرلو، تمھارا وزير بھي کسي شائستہ شخص کو قرار دے دوں گا تاکہ اکثر کاموں کو ديکھتا رھے اور تو عبادت خدا ميں مشغول رہنا۔

ھارون اس چيز سے بے خبر تھا يا اپنے کو غافل بنائے ھوئے تھا کہ حکومت ائمہ معصومين اور اولياء الٰھي کا حق ھے۔ ظالموں، ستمگروں، غاصبوں اور طاغوتوں کي حکومت ميں کسي شھر کي امارت قبول کرنا جھاں پر حکم الٰھي کو نافذ نہ کيا جاسکے، اور اس کي درآمد سے کوئي بھي عبادت صحيح نھيں ھوگي کيونکہ يہ بالکل حرام مال ھے، اور اس عبادت سے خدا بھي راضي نھيں ھوگا، نيز ظالم حکومت کي طرف سے کسي علاقہ کي امارت لينا بغير شرعي دليل کے ايک گناہ عظيم ھے۔

قاسم نے کھا: ميں کسي بھي طرح کا کوئي منصوبہ قبول کرنے کے لئے تيار نھيں ھوں اور نہ ھي حکومت و امارت قبول کروں گا۔

ھارون نے کھا: تو خليفہ، حاکم اور ايک وسيع و عريض زمين کے بادشاہ کا بيٹا ھے کيا وجہ ھے کہ تو نے غريب و فقير لوگوں کے ساتھ بيٹھ کر مجھے ذليل و رسوا کرديا ھے؟ اس نے جواب ديا: تو نے بھي مجھے نيک و صالح لوگوں کے درميان ذليل و رسوا کررکھا ھے کہ تو ايک ايسے باپ کا بيٹا ھے!

ھارون اور حاضرين مجلس کي نصيحت اس پر کارگر نہ ھوسکي، تھوڑي دير کے لئے خاموش کھڑا رھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next