(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



امام حسين عليہ السلام نے حر ّ سے کھا: تيري ماں تيري عزا ميں بيٹھے، تو کيا چاھتا ھے؟ حرّ نے کھا: اگر عرب کا کو ئي دوسرا شخص مجھے يہ بات کھتااور آپ جيسي حالت ميں ھوتا تو ميں اس کو کبھي نہ چھوڑتا اور اس کي ماں کو اس کي عزا ميں بٹھاديتا، چاھے جو ھوتا، ليکن خدا کي قسم مجھے يہ حق نھيں ھے کہ آپ کي ماں کا نام (اسي طرح) لوں ، مگر يہ کہ نيکي اور احسان سے ۔

”وَلَکِنْ وَاللّٰہِ مَالِي اِلَي ذِکْرِ اُمِّکَ مُنْ سِبيلٍ اِلاَّ بِاَحْسَنِ مَا يُقْدِرُ عَلَيْہِ“۔[24]

اس کے بعد حرنے کھا: مجھے آپ سے جنگ کرنے کا حکم نھيںھے ، آپ ايسا راستہ اختيار کرسکتے ھيں کہ نہ مدينہ جاتا ھو اور نہ کوفہ، شايد اس کے بعد کوئي ايسا حکم آئے کہ ميں اس مشکل سے نجات پاجاؤں، اور اس کے بعد قسم کھاکر امام حسين عليہ السلام سے کھا کہ يااباعبد اللہ! اگر جنگ کريں گے تو قتل ھوجائيں گے۔

چنانچہ امام حسين عليہ السلام نے فرمايا: تو مجھے موت سے ڈراتا ھے؟ تمھارا انجام کار يھاں تک پہنچ گيا ھے کہ مجھے قتل کرنے کي فکر ميں ھو! اس کے بعد دونوں لشکر روانہ ھوگئے، راستہ ميں کوفہ سے آنے والے امام حسين عليہ السلام کے مددگار آپہنچے، حرّ نے ان کو گرفتار کرکے کوفہ بھيج دينے کا ارادہ کيا، امام حسين عليہ السلام نے روکتے ھوئے فرمايا: ميں ان کا بھي دفاع کروں گا، جس طرح اپني جان کا دفاع کرتا ھوں، يہ سن کر حر ّ نے اپنا حکم واپس لے ليا،اور وہ امام حسين عليہ السلام کے ساتھ ھوگئے۔

آخر کار امام حسين عليہ السلام کو کربلا ميں گھير لائے، يزيد کي فوج دستہ دستہ امام حسين عليہ السلام کے قتل کے لئے کربلا ميں جمع ھونے لگي، اور اس فوج کي تعداد بڑھتي گئي، عمر سعد يزيدي لشکر کا سردار تھا حرّ بھي سپاہ يزيد کے سرداروں ميں سے ايک تھا۔

جس وقت عمر سعد جنگ Ú©Û’ لئے تيار ھوگيا، حر Ù‘ Ú©Ùˆ اس بات کا يقين نہ تھا کہ پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©Û’ پيروکار ،فرزند رسول پر حملہ کرنے Ú©Û’ لئے تيار ھوجائيں Ú¯Û’ØŒ چنانچہ حر ،عمر سعد Ú©Û’ پاس گيا اور سوال کيا: کيا واقعاً (امام) حسين سے جنگ ھوگي؟ عمر سعد Ù†Û’ کھا: ھاں ھاں! بڑي گھمسان Ú©ÙŠ جنگ Ú¾ÙˆÚ¯ÙŠØŒ حرّ Ù†Û’ کھا: کيوں (امام) حسين Ú©ÙŠ پيشکش Ú©Ùˆ قبول نہ کيا؟ عمر سعد Ù†Û’ کھا: مجھے مکمل اختيار Ù†Ú¾ÙŠÚº Ú¾Û’ اگر مجھے اختيار ھوتا تو قبول کرليتا،پورا اختيار امير Ú©Û’ ھاتھوں ميں Ú¾Û’ ØŒ ”المامور معذور “!

حر Ù‘ Ù†Û’ اپنا ارادہ مضبوط کرلياکہ مجھے امام حسين (عليہ السلام) سے ملحق ھونا Ú¾Û’ØŒ البتہ يزيدي فوج Ú©Ùˆ اس بات Ú©ÙŠ خبر نہ ھو، اپنے پاس Ú©Ú¾Ú‘Û’ چچازاد بھائي سے کھا: کيا تو Ù†Û’ اپنے Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©Ùˆ پاني پلاليا Ú¾Û’ØŸ ”قرہ“ Ù†Û’ جواب ديا: نھيں، حرّ Ù†Û’ کھا: کيا اس Ú©Ùˆ پاني Ù†Ú¾ÙŠÚº پلائے گا؟ قرہ Ù†Û’ اس سوال سے Ú©Ú†Ú¾ اس طرح اندازہ لگايا کہ حر جنگ Ù†Ú¾ÙŠÚº کرنا چاھتا ليکن اپني بات کسي پر ظاھرکرنا بھي Ù†Ú¾ÙŠÚº چاھتا،شايد کوئي جاکر خبرکردے، لہٰذا اس Ù†Û’ اس طرح جواب ديا:  Ù¹Ú¾ÙŠÚ© Ú¾Û’ ميں Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©Ùˆ پاني پلاتا Ú¾ÙˆÚº اور حر سے دور چلاگيا۔

مھاجر ØŒ حر Ù‘ کا دوسرا چچا زاد بھائي حر Ú©Û’ پاس آيا اور کھا: کيا ارادہ Ú¾Û’ØŒ کيا حسين پر حملہ کرنا     چاھتا Ú¾Û’ØŸ

حر نے اس کو کوئي جواب نہ ديا، اور اچانک درخت بيد کي طرح لرزنے لگا ، جيسے ھي مھاجر نے اس کي يہ حالت ديکھي تو بھت تعجب کيا اور کھا: اے حر تيرے کام انسان کو شک ميں ڈال ديتے ھيں، ميں نے اس سے پھلے تيري يہ حالت کبھي نھيں ديکھي تھي، اگر کوئي مجھ سے پوچھتا کہ کوفہ ميں سب سے زيادہ شجاع اور بھادر کون شخص ھے؟ تو ميں تيرا نام ليتا، ليکن آج يہ تيري کيا حالت ھورھي ھے؟

حر ّ نے زبان کھولي او رکھا: ميں دو راہہ پر کھڑا ھوں ميں اپنے کو جنت و دوزخ کے درميان پارھا ھوں، اور پھر کھا: خدا کي قسم، کوئي بھي چيز جنت کے مقابلہ ميں نھيں ھے، ميں جنت کو نھيں کھوسکتا، چاھے ميرے ٹکڑے ٹکڑے کرڈاليں يا مجھے آگ ميں جلاڈاليں، يہ کہہ کر اپنے گھوڑے پر سوار ھوا اور امام حسين عليہ السلام کي طرف روانہ ھوگيا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next