(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



جناب موسيٰ عليہ السلام طور کي طرف روانہ ھوگئے، اس نوراني وادي ميں خداوندعالم سے راز و نياز کرنے لگے، گرياں کناں آنکھوں سے مناجات شروع کردي، اس خلوت ميں ايسا کيف تھا کہ دوسرے اس سے بے بھرہ ھيں، خداوندعالم سے عاشقانہ گفتگو ھوئي، جب آپ راز و نياز سے فارغ ھوئے اور وھاں سے واپس چلنے کا ارادہ کيا، خطاب ھوا: اے موسيٰ ميرے بندے کا پيغام کيا تھا؟

عرض کيا: ميں اس پيغام کو سناتے ھوئے شرم محسوس کرتا ھوں، تو خود عليم و بصير ھے اور جانتا ھے کہ اس بوڑھے آتش پرست کافر نے تيرے شان ميں کيا گستاخي کي ھے!

خطاب ھوا: اس زبان دراز کے پاس جانا اور ميري طرف سے اس کو سلام کہنا اوراس کے بعد پيار و محبت سے اس کا يہ پيغام سنانا:

اگر تجھے مجھ سے عار Ú¾Û’ØŒ تو مجھے تجھ سے کوئي عار Ù†Ú¾ÙŠÚº Ú¾Û’ ھرگز تجھ سے جنگ Ù†Ú¾ÙŠÚº کروں گا، اگر تو مجھے Ù†Ú¾ÙŠÚº چاھتاتو ميں تو تجھے بھت چاھتا ھوں، تو اگر ميري روزي اور رزق Ù†Ú¾ÙŠÚº چاھتا ميں اپنے فضل وکرم سے تجھے روزي عنايت کروں گا، اگر ميري روزي کا احسان Ù†Ú¾ÙŠÚº چاھتا تو ميں بغير احسان Ú©Û’ روزي عنايت کروں گا، ميرا فيض سب Ú©Û’ لئے اور عام Ú¾Û’ØŒ ميرا لطف Ùˆ کرم بے نھايت ØŒ ھميشگي اور قديم Ú¾Û’Û” تمام لوگ ميرے نزديک بچوں Ú©ÙŠ طرح Ú¾ÙŠÚº اور ميرا فيض دودھ پلانے والي ايک  خوش اخلاق ماں Ú©ÙŠ طرح Ú¾Û’Û” ھاں بچے کبھي غصہ ميں اور کبھي پيار ميں پستان مادر Ú©Ùˆ اپنے منھ سے نکال ديتے Ú¾ÙŠÚº ليکن ان Ú©ÙŠ ماں ان سے ناراض Ù†Ú¾ÙŠÚº ھوتي، بلکہ پھر اپني پستان ان Ú©Û’ منھ رکھ ديتي Ú¾Û’Û”

بچہ منھ پھير ليتا ھے اور اپنے منھ کو بند کرليتا ھے، ماں اس کے بند منھ کے بوسہ لينا شروع کرديتي ھے،اور پيار بھرے انداز ميں کھتي ھے: ارے ميرے بچے! منھ نہ موڑ، دودھ بھري چھاتي کو منھ ميں رکھ لے ،اے ميرے لاڈلے ! ديکھ تو سھي ميرے پستان سے بھار ميں ابلنے والے چشمہ کي طرح دودھ جوش مارھا ھے۔

جس وقت جناب موسيٰ عليہ السلام کوہ طور سے واپس آئے، اس بوڑھے آتش پرست نے کھا: اگر ميرے پيغام کا جواب لائے ھو تو بيان کرو۔

جناب موسيٰ عليہ السلام نے خدا کا پيغام اس کافر اور آتش پرست کو سنايا، کلام الٰھي نے اس کافر اور ملحد کے دل سے کفر کے زنگ کو دور کرديا، وہ ايک گمراہ انسان تھا جو راہ حق سے دور ھوچکا تھا، خدا کا پيغام اس کے لئے ايک گھنٹي کي طرح تھا، وہ شب تاريک کي طرح اندھيرے ميں ڈوبا ھوا تھا، وہ جواب اس کے لئے نور خورشيد کي طرح بن گيا۔

شرم و حيا کي وجہ سے سر جھک گيا، اپني آنکھوں پر ھاتھ رکھے اور زمين کي طرف ديکھنے لگا، تھوڑي دير بعد اس نے سر اٹھايا اور اشک بھري آنکھوں اور سوز جگر کے ساتھ کھا: اے موسيٰ! تم نے ميرے جسم ميں آگ لگادي ھے، جس سے ميرا جسم و روح دھواں ھوگيا ھے، يہ کيا پيغام تھا جو ميں نے خدا کي بارگاہ ميں پيش کيا، ميں بدبخت ھوں، افسوس مجھ پر، اے موسيٰ! مجھے ايمان کي تعليم ديں، اے موسيٰ! مجھے حقيقت کا راستہ بتاؤ، خدايا کيا عجيب واقعہ پيش آيا، ميري روح قبض کرلے تاکہ ميں اس پريشاني سے نجات پاجاؤں!

جناب موسيٰ عليہ السلام نے ايمان، عشق، رابطہ کي گفتگو اور خدا سے راز و نياز کا سليقہ سکھايا، اور اس نے توحيد کا اقرارکيا اوراپنے گزشتہ سے توبہ کي اور اس دنيا سے محبوب کي طرف کوچ کرگيا!

توبہ اور خدا سے صلح و صفا

۱۹۵۱ ء ميں جب شيعہ مرجعيت کي ذمہ داري،حضرت آيت اللہ العظميٰ آقاي بروجردي رحمة اللہ عليہ کے شانوں پر تھي ،جو علم و عمل کے مجاہد اور باکمال نوراني چھرہ کے مالک تھے ،اس وقت حقير کي عمر نو سال تھي، توبہ کے سلسلہ ميں ايک عجيب و غريب واقعہ پيش آيا جس کا ذکر کرنا مناسب ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next