(توبه آغوش رحمت چوتها حصه)



مصر کي حکومت اس کے نام لکھ دي گئي حاضرين اس کو مبارکباد اور تہنيت پيش کرنے لگے۔

جيسے ھي رات کا وقت آيا بغداد سے بصرہ کي طرف بھاگ کھڑا ھوا، صبح جب ڈھونڈا گيا تو اس کو نہ پايا۔

بصرہ کے اطراف ميں رہنے والے عبد اللہ ابصري کھتا ھے: بصرہ ميں ميرا ايک مکان تھا جس کي ديواريں خراب ھوچکي تھيں، ايک روز سوچا مکان کي گري ھوئي ديوار کو بنواديا جائے مزدور کي تلاش ميں نکلا، مسجد کے پاس ايک جوان کو ديکھا جو قرآن پڑھنے ميں مشغول ھے اور بيلچہ اور ٹوکري لئے ھوئے ھے، ميں نے اس سے سوال کيا: کيا کام کرنے کے لئے تيار ھو؟ اس نے کھا: ھاں ، خداوندعالم نے ھميں حلال رزق حاصل کرنے کے لئے کام او رزحمت کے لئے پيدا کيا ھے۔

ميں Ù†Û’ کھا: آؤ اور ھمارے مکان ميں کام کرو، اس Ù†Û’ کھا: Ù¾Ú¾Ù„Û’ ميري اجرت Ø·Û’ کرو، بعد ميں تمھارے کام Ú©Û’ لئے جاؤں گا، اس Ù†Û’ کھا: ايک درھم ملے گا، اس Ù†Û’ قبول کرليا، شام تک اس Ù†Û’ کام کيا، ميں Ù†Û’ اندازہ لگايا کہ اس Ù†Û’ دو آدميوں Ú©Û’ برابر کام کيا Ú¾Û’ ميں Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ دو درھم دينا چاھے ليکن اس Ù†Û’ انکار کرديا، او رکھا: مجھے زيادہ Ù†Ú¾ÙŠÚº چاہئے، دوسرے روز اس Ú©ÙŠ تلاش ميں گيا ليکن وہ نہ ملا، اس Ú©Û’ بارے ميں لوگوں سے سوال کيا تو Ú©Ú†Ú¾ لوگوں Ù†Û’ مجھے بتايا کہ وہ صرف سنيچر Ú©Û’ روز کام  کرتا Ú¾Û’Û”

سنيچر کے روز صبح صبح اس کي پھلي جگہ تلاش کے لئے گيا وہ مل گيا، اس کو لے گيا وہ ديوار بنانے ميں مشغول ھوگيا، گويا غيب سے اس کي مدد ھوتي تھي، جيسے ھي نماز کا وقت ھوا، اس نے کام روک ديا، اپنے ھاتھ پيردھوئے اور نماز واجب ميں مشغول ھوگيا، نماز پڑھنے کے بعد پھر کام ميں مشغول ھوگيا، يھاں تک کہ سورج ڈوبنے لگا، اس کي مزدوري اس کو دي اور وہ چلا گيا، چونکہ ميري ديوار مکمل نھيں ھوئي تھي دوسرے سنيچر تک صبر کيا تاکہ پھر اسي کو لے کر آؤں، سنيچر کے روز مسجد کے پاس اس کو تلاش کيا ليکن وہ نھيں ملا، اس کے بارے ميں لوگوں سے سوال کيا تو کھا: دو تين دن سے بيمار ھے، اس کے گھر کا پتہ معلوم کيا ايک پرانے اور قديم محلہ ميں اس کا ايڈرس بتايا گيا، ميں وھاں گياديکھا تو بستر علالت پر پڑا ھوا ھے اس کے سرھانے بيٹھ گيااور اس کے سر کو اپني آغوش ميں ليا، اس نے آنکھيں کھولي تو سوال کيا: تم کون ھو؟ ميں نے کھا: ميں وھي ھوں جس کے لئے تم نے دو دن کام کيا ھے، ميرا نام عبد اللہ بصري ھے، اس نے کھا: ميں نے تمھيں پہچان ليا، کيا تم بھي مجھے پہچاننا چاھتے ھو؟ ميں نے کھا: ھاں بتاؤ تم کون ھو؟

اس نے کھا: ميرا نام قاسم ھے اور ميں ھارون الرشيد کا بيٹا ھوں!

جيسے اس نے اپنا تعارف کرايامجھے فوراً ايک جھٹکا لگا اور لرزنے لگا، ميرے چھرے کا رنگ بدل گيا او رکھا: اگر ھارون کو معلوم ھوگيا کہ ميں نے اس کے بيٹے سے مزدوري کرائي ھے تو مجھے سخت سزا دے گا، ميرے گھر کو ويران کرنے کا حکم دےدے گا۔ قاسم سمجھ گياکہ وہ بري طرح ڈرگيا ھے، اس نے کھا: خوف نہ کھاؤ اور ڈرو نھيں، ميں نے ابھي تک کسي سے اپنا تعارف نھيں کرايا ھے، اب بھي اگر مرنے کے قريب نہ ھوتا تو تمھيں بھي نھيں بتاتا، ميں تم سے ايک خواہش رکھتا ھوں اور وہ يہ کہ جب ميں دنيا سے چل بسوں تو جو شخص ميري قبر تيار کرے يہ بيلچہ اور ٹوکري اس کوديدينا اور يہ قرآن جوميرا مونس و ھمدم تھا کسي قرآن پڑھنے والے کو ديدينا، اس نے اپني انگوٹھي مجھے دي او رکھا: ميرے مرنے کے بعد اگر تيرا گزر بغداد سے ھو تو ميرا باپ سنيچر کے روز عام لوگوں سے ملاقات کرتا ھے، اس کے پاس جانا اور اس کو يہ انگوٹھي دينا او رکہنا: تيرے بيٹا اس دنيا سے گزر گيا ھے، اور اس نے کھا ھے: تجھے مال دنيا جمع کرنے کا لالچ بھت زيادہ ھے ، اس انگوٹھي کو بھي لے کر اپنے مال ميں اضافہ کرلے، ليکن روز قيامت اس کا حساب بھي خود ھي دينا، کيونکہ مجھ ميں حساب کي طاقت نھيں ھے، يہ کھتے کھتے اٹھنا چاھا ليکن اس کي طاقت جواب دي گئي، دوبارہ پھر اٹھنا چاھا ليکن نہ اٹھ سکا،اس نے کھا: اے عبد اللہ ! مجھے ذرا اٹھادو کيونکہ ميرے مولا و آقا امير المومنين عليہ السلام تشريف لائے ھيں، ميں نے اس کو اٹھايا اور اچانک اس کي روح پرواز کر گئي، گويا ايک چراغ تھا جس ميں ايک چنگاري اٹھي اور خاموش ھوگيا!

ايک آتش پرست کي توبہ

مشھور و معروف فقيہ عارف نامدار فيلسوف بزرگوار جناب ملا احمد نراقي اپني عظيم الشان کتاب ”طاقديس“ ميں تحرير فرماتے ھيں:

جناب موسيٰ عليہ السلام کوہ طور کي طرف چلے جارھے تھے، راستہ ميں ايک بوڑھا آتش پرست ملا جو گمراھي اور گناھوں سے آلودہ تھا، اس نے جناب موسيٰ عليہ السلام نے کھا: کھاں جارھے ھيں، کس سے باتيں کرنے جارھے ھو؟ چنانچہ جناب موسيٰ عليہ السلام نے جواب ديا: کوہ طور پر جارھا ھوں، جس جگہ وہ بے انتھا نور کا مرکز ھے، وھاں جاتا ھوں تاکہ حضرت حق سے راز و نياز اور مناجات کروں، اور تمھارے گناھوں اور خطاؤں کي معذرت کروں۔

اس آتش پرست نے کھا: کيا ميرا پيغام بھي خدا کے پاس پہنچا سکتے ھو؟ جناب موسيٰ عليہ السلام نے کھا: تيرا پيغام کيا ھے؟ اس نے کھا: ميري طرف سے اپنے پروردگار سے کہنا کہ اس خلقت کے جھرمٹ اور آفرينش کے بھيڑ ميں ميں تجھ کو خدا مانوں يہ ميرے لئے ننگ و عار ھے، مجھے ھر گز اپنے پاس نہ بلانا اور مجھے تيري روزي کي منت او رتيرے احسان کي بھي ضرورت نھيں ھے، نہ تو ميرا خدا ھے او رنہ ميں تيرا بندہ! جناب موسيٰ عليہ السلام نے اس بے معرفت آتش پرست کي گفتگو کو سنا اور اس گستاخ کي گفتگو پر بھت جوش آيا، اپنے دل ميں کھا: ميں اپنے محبوب سے مناجات کرنے کے لئے جارھا ھوں، مناسب نھيں ھے کہ اس کے سامنے يہ سب نازيبا گفتگو بيان کروں، اگر خدا کا احترام کرتا ھوں تو ان باتوں کو بيان نہ کروں تو اچھا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next