اسلامى تہذيب و تمدن ميں فن و ہنر



بوعلى سينا كے جو افكار مغرب ميں منتقل ہوئے ان ميں سے ايك معقولات كا موضوع تھايعنى وہ چيزيں جو عقل كے ذريعے قابل درك ہيں بوعلى سينا كا ايك نظريہ يہ بھى تھا كہ ہر موجود كى اساس تجزيہ كے قابل نہيں ہے اور موجودات ميں كثرت و اختلاف كى بنياد بذات خود مادہ ہے _

سرزمين مغرب كے بعض دانشور مثلا راجر بيكن كا يہ عقيدہ تھا كہ ارسطو كے فلسفہ كے اثرات مغرب ميں زيادہ نہيں تھے خواہ اسكى وجہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا كم ہونا ہو خواہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا آسانى سے درك نہ ہونا ہو يہاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد اسلام كے بڑے فلاسفہ مثلا بوعلى سينا اور ابن رشد نے ارسطو كے فلسفہ كو سمجھا اور موضوع بحث قرار ديا اگر چہ اس دور ميں بوئيٹس نے ارسطو كے بعض آثار كو ترجمہ كرديا تھا فقط مانيكل اسكاٹ كے دور ميں كہ جب اس نے ارسطو كى طبيعت اور حكمت كے بارے ميں بعض كتابوں كا عربى سے لاطينى ميں ترجمہ كيا تو اس دور ميں مغرب ميں ارسطو كے فلسفہ كو پسند كيا گيا(1)_

--------------------------

1)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج 3 ذيل'' ابن رشد'' ( شرف الدين خراسانى اُ جَ ع ذيل'' ابن سينا''_

قمرى ہجرى ميں عيسائي مبلغين كے حكم پر ٹولڈو شہر ميں مشرقى علوم سے آشنائي كيلئے پہلا ادارہ قائم ہوا، اس ادارہ ميں عربى زبان ، عيسائي اور يہودى دينى علوم كى تعليم دى جاتى تھى تا كہ مسلمانوں ميں تبليغ كيلئے افراد تيار كيے جائيں اس ادارہ كا سب سے بہترين طالب علم ريمنڈ مارٹن تھا ،اسكا يورپ ميں مسلمان مصنفين كے بارے ميں معلومات كے حوالے سے كوئي ثانى نہ تھا وہ نہ صرف يہ كہ قرآنى آيات اور اسلامى احاديث سے آگاہى ركھتا تھا بلكہ فارابى سے ليكر ابن رشد تك علم الہى اور اسلامى فلسفہ كے تمام علماء سے نكات بھى جانتا تھا ريمونڈ مارٹين نے غزالى كى مشہور كتاب تھافت الفلاسفہ پر بھى تحقيق كى اور اس كتاب كے بعض حصوں كو اپنى كتاب ''پوگو فيڈي'' ميں نقل كيا غزالى كے افكار و عقائد جب سے يورپى دانشوروں كے ہاں منتقل ہوئے اسى وقت سے عيسائي اہل فكر كيلئے بہت اہميت كے حامل ہيں اور اب بھى ان كے ليے مفيد ہيں _

فلسفہ ميں اسلام كى ديگر عظيم شخصيات ميں سے كہ جو يورپ ميں مشہور ہوئيں جناب ابن رشد تھےاٹلى ميں انكے افكار و نظريات تقريباً سولھويں صدى عيسوى تك چھائے رہے،ان كے عقائد عيسائيوںميں بہت سى مباحث كا باعث قرار پائے_ مغرب ميں ابن رشد كے فلسفہ كى پيروى كہ جسے اصطلاحى طور پريوروازم كانام ديا گيا جديد علوم كے ظہور تك يورپ ميں فلسفہ كى بقا كے اسباب ميں سے ايك سبب تھا(1) _

يہ مسلمہ بات ہے كہ اس علم الہى كے حوالے سے مسلمانوںكى خدمات بے حد اہميت كى حامل ہيںاور وہ لوگ جو اسلامى دانشوروں كو جدت و بنياد سے محروم كہتے ہيں يقيناً انہوں نے ابن رشد اور غزالى كے آثار كا مطالعہ نہيں كيا ٹوماز ايكوئنس كى مشہور كتاب ''سوما''اسى كوتاہ فكرى پر ايك دليل ہے_

چارصديوں سے زيادہ مدت تك يورپ كے تمام تعليمى اور ثقافتى مراكز پر اسلامى تہذيب و تمدن كے اثرات چھائے رہے _ جب يورپ ميں اسلامى افكار كى برترى كا دور ختم ہو ا پھر بھى مشرق و مغرب ميں ثقافتى رابطہ باقى رہا اور يہ رابط و تعلق تيرھويں صدى عيسوى ميں اپنے عروج كو پہنچا ، اگر ہم اس دور كے باقى ماندہ

--------------------

1) سابقہ حوالہ ج 2_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next