اسلامى تہذيب و تمدن ميں فن و ہنر



يہ مسلم سى بات ہے كہ مشرق قريب بالخصوص ايران ميں پانچ قرن قبل مسيح قالين سازى كى صنعت رائج تھى _ سائبيريا كے جنوب ميں ''پا زير يك'' نام كى جگہ پر پانچ قرن قبل چھوٹا سا پشمى قالين معجزانہ طريقہ سے ہمارے ليے برف ميں محفوظ رہا _ يہ قالين جس جگہ سے ملا وہ جگہ '' قالى پا زير يك '' كے عنوان سے مشہور ہوگئي

----------------------------

1) فورست دلدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص 312_

ان سب چيزوں كے باوجود ساتويں صدى سے ايك جيسى روش كے ساتھ بہت زيادہ تعداد ميں قالين تيار ہونے كا كام رائج تھا _ ايسے قالينوں كا ايك مكمل سيٹ قونيہ اور ديگر شہروں ميں سلجوقيوں كى بڑى مساجد سے ملاہے _ ايران ميں قالين باف افراد نے خطى نسخوں كو سونے كے پانى سے آراستہ كرنے كى روش كى مانند كام كيا قالينوں كے وسط اور حاشيوں پر مختلف انواع كے جذاب رنگ استعمال كيے _ صفوى دور ميں نفيس ترين ايرانى قالين مساجد ، معابد اور متبرك مقامات كو ہديہ كيے جا تے تھے كہ ان ميں سے ايك ابھى تك باقى ہے يہ قالين شيخ صفى كى آرامگاہ كيلئے تيار ہوا تھا اس قالين كا نقشہ مقصود كاشانى نے تيار كيا تھا كہ يہ 966 قمرى ميں مكمل ہوا تھا اور اب يہ لندن كے ميوزيم ميں موجود ہے _

صفوى دور كے قالين بيشتر پشم سے تيار ہوتے تھے _ ليكن شاہ عباس كبير كے دور ميں كبھى ريشمى اور كبھى توسونے وچاندى كى تاروں سے قاليں تيار ہوتے تھے_ قفقاز والوں نے بعض ايرانى قالين بطور قرض ليے اور انہيں اس روش كے ساتھ كہ جن ميں گل بوٹے اور جانور و غيرہ تھے تيار كيا _ صفوى دور كے ريشمى اور سونے كى تاروں سے تيار كپڑے ابھى يورپ والوں كے پاس موجود ہيں اس قسم كے كپڑوں پر ڈيزائن زيادہ تر پھول اور كبھى تو جانوروں اور آدميوں كى صورت كے ساتھ بنائے جاتے تھے_

صفوى بادشاہوں ميں شاہ عباس كبير سب سے ممتاز شخصيت كا مالك تھا وہ ہنر و فن كا دلدادہ اور ہنر پروردہ شخصيت كا حامل تھا در اصل اصفہان كى رونق اور شہرت اسى كے مرہون منت ہے_قديم اصفہان كے مغربى جنوبى علاقہ يعنى نئے اصفہان ميں چوك ، ميدان ، مساجد ، محلات ، بازار اور بہت سے باغ كہ جو اس نے بنوائے ان كى بدولت اصفہان نصف جہا ن بنا _

شاہ عباس كے زمانے ميں شہرى اور عمومى تعميرات كيلئے علاقے كا نقشہ تيار ہوا ايك بہت بڑا ميدان يا چوك اس نے بنايا كہ جسے ميدان نقش جہان كا نام ديا گيا _پھر اسكے تمام چاركونوں كے درميان ايك بڑى عمارت بنائي گى ان عمارتوں كا عمومى نقشہ چار ايوانوں پر مشتمل ايك عمارت كا تھا كہ جو ايرانى معمارى ميں قديم ادوار سے ربط ركھتا تھا _ يہ چار بہترين عمارتيں يہ تھيں: مسجد شاہ ، مسجد شيخ لطف اللہ ، قيصريہ كے بازار كا دروازہ اور عالى قاپو كى عمارت _ (1)

شہر كے درميان ميدان شاہ پانچ سوميٹر سے زيادہ رقبہ پر مشتمل تھا بازار بھى تھا اورساتھ ساتھ چوگان بازى اور تير اندازى كے ميدان كا كام بھى ديتا تھا ميدان كے تمام اطراف كو ايك دو طبقہ عمارت نے گھيرے ميں ليا ہواتھا نچلے طبقہ ميں دھات كارى اور كندہ كارى والوں كى دوكانيں تھيں كہ جہاں وہ لوگ اپنى فنى ايجادات ميں مصروف تھے_

اس ميدان كے مشرقى حصے ميں مشہور اور خوبصورت مسجد يعنى مسجد شيخ لطف اللہ تعمير ہوئي تھى _ (1012 قمرى ، 1603 عيسوى ) البتہ مسجد شاہ اصفہان مسجد شيخ لطف اللہ سے بڑى ہے اور اسميں ايك قابل ديد اور باشكوہ صحن ہے _ ميدان شاہ كے مغربى جانب چھ طبقات پر مشتمل عالى قاپو كا محل تھا كہ اسكے چوتھے طبقہ ميں بہت سے ستونوں والا ايك ايوان ہے جہاں بادشاہ بيٹھ كہ كھيليں اور جشن ديكھا كرتا تھا _ شاہ عباس نے شہر كے مركز ميں ايك كھلى اور وسيع سڑك بنوائي كر جسكا نام چارباغ ہے كہ جسكے كناروں پر درخت چنار كى چندقطاريں لگوائيں اس سڑك كا اختتام سى و سہ پل يا پل اللہ ورديخان پر ہوتا ہے _

شايد جانسن كى بات درست ہے كہ اس نے گيارہويں صدى كے اوائل يعنى ستريں صدى عيسوى كے ابتدائي پچاس سال كو معمارى كى دنيا ميں اسلامى عروج اور ترقى كا آخرى مرحلہ قرار ديا ہے كيونكہ اس دور ميں عالم اسلام كے تين مقامات پرفن كے تين شاہكار وجود ميں آئے :ايران ميں ميدان شاہ اصفہان ، ہندوستان ميں تاج محل يا ارجمند بانو بيگم كى آرامگاہ اور عثمانى مملكت ميں مسجد سلطان احمد اول _ (2)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next