اسلامى تہذيب و تمدن ميں فن و ہنر



مسلمانوں كے مغرب كے جغرافيہ ميں اثرات اور وہاں اس علم كى ترقى ميں انكے كردار پر مطالعہ اور تحقيق كوئي آسان كام نہيں ہے كيونكہ يہ واضح نہيں ہے كہ مسلمانوں كى جغرافيہ كے حوالے سے معلومات كس حد تك مطالعاتى اور كس حد تك تجرباتى مشاہدات اور سير و سفر كى بناء پر تھيں_

اگرچہ تيسرى صدى ہجرى سے چھٹى صدى ہجرى تك اس حوالے سے بہت سى كتابيں عربى زبان ميں لكھى گئيں ليكن ان سب كو درست اوربے عيب نہيں سمجھا سكتا دوسرى طرف تاجروں اور جہاز رانوں كے مختلف سير و سفر كے تجربات اور مشاہدات انتہائي اہميت كے حامل ہيں جغرافيہ كے موضوع پر لكھنے دالے مؤلفين يقينا ايسے لوگوں سے خوب بہرہ مند ہوتے تھے كيونكہ يہى تاجراور دريانورد لوگ ہى تھى كہ جنہوں نے اسلام كے قرون وسطى كے يورپ سے تعلقات قائم كيے اور اسلامى تہذيب كو يور پ ميں منتقل كيا _

جغرافيہ كے حوالے سے مختلف سفرنامے ، جغرافيائي كتابيں اور زمين كے حدود اربعہ كى تشريحات ،مختلف انواع كے جغرافيائي نقشہ جات اورفلكيات كى راہنما كتابيں يہ سب مغربى جہاز رانوںاور جغرافيہ دانوں كے زير استعمال تھيں_

اسلامى ماہرين فلكيات كے جغرافيائي آثار ديگر جغرافيائي كتب سے بڑھ كر قرون وسطى كے يورپ ميں مقبول و معروف تھے اور ان ميں سے بعض يورپى زبانوں ميں ترجمہ بھى ہوئے_ سب سے پہلى جگہ جہاں جغرافيہ كے عيسائي اساتذہ نے اسلامى جغرافيہ كى تعليم لى وہ اسپين كا شہر ٹولڈ تھا اور انہوں سے سب سے پہلى چيز زميں كا گول ہونا سمجھا كيونكہ اس كو سمجھے بغير بر اعظم امريكا كا دريافت ہونا ممكن نہ تھا_

اسلامى ماہرين فلكيات علم جغرافيہ كو زيادہ تر جغرافيائي طول و عرض كے تعين كے ليے مطالعہ ميں لاتے تھے اور بطلميوس كى سات تقسيمات كے مطابق ربع مسكون (1)كو سامنے لاتے تھے_ اسى قسم كى تقسيمات 1501

---------------------------

1)زمين كا وہ چوتھائي سطحى حصہ جو خشك ہے اور انسانوں اور حيوانات سے آباد ہے_

سے 1504 عيسوى تك پرتگا ليوں كے دريائي نقشوں ميں مرتب و منظم كى گئي تھيںان ہى تقسيمات كے بعض نقشہ جات كوحتى كہ اٹھارہويں صدى كے اواخر ميں بھى يورپى جغرافيائي نقشہ جات ميں ديكھا جا سكتا ہے_

مسلمان جہاز رانوں كاجغرافيہ ميں اہم ترين اقدامات ميں سے ايك قطب نما كو استعمال ميں لانا تھا _ اگر چہ يہ چينيوں كى ايجاد تھى _ ليكن يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ لوگ آيا اسے كشتى رانى ميں استعمال كرتے تھے يا نہ؟ كيونكہ وہ كبھى بھى ساحل سے دور نہيں ہوئے تھے_ ليكن مسلمانوں كى صورت حال مختلف تھى جب يورپى لوگ چين كے وجود سے بے خبر تھے تو اس دور ميں يمسلمانوں كے اس ملك كے ساتھ تجارتى تعلقات تھے لہذا قوى امكان يہى ہے كہ مسلمانوں نے يورپى لوگوں كو اس قطب نماسے آگاہ كيا ہو_ چونكہ يورپى لوگ تيرھويں صدى سے پہلے تك قطب نما استعمال نہيں كرتے تھے جبكہ اسلام كے عظيم مورخ اور جغرافيہ دان ادريسى نے بارھوين صدى كے وسط ميں قطب نما كے بارے ميں گفتگو كى ، مسلمانوں ميں اس كے استعمال كو بيان كيا اور وہ اسكا يورپ ميں منتقل ہونا مسلمانوں كے ذريعے سمجھتے ہيں_

دوسرى طرف سے واسكو ڈے گاما كے دريائي راستوں كے ذريعے مشرقى سرزمينوں تك پہنچے سے كئي صدياں قبل مسلمان ان سرزمينوں سے آگاہ تھے يہ شخص بھى مسلمان ملاح احمد بن ماجد كے ذريعے (Goodhope" (2،1" كے راس (Promontry) سے ايشيا كے ساحل تك پہنچا حقيقى بات يہ ہے كہ ماركوپولو سے پانچ سو سال پہلے ہند اور چين كى طرف ملاح راستہ ايك مسلمان ملاح سليمان سيرافى كے ذريعے معلوم ہو چكا تھا(3)_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next