اسلامى تہذيب و تمدن ميں فن و ہنر



چوتھے مرحلہ ميں حاكم طبقہ اور رعايا كى مسرتوں كا عروج كا دور ہے يہ لوگ پچھلى نسلوں كى مانند زندگى كى لذتوں سے فائدہ اٹھاتے ہيں ليكن اس امر سے غافل ہيں كہ پچھلى نسل نے ان لذتوں تك پہنچنے كيلئے كتنى جدو جہد كى تھيں وہ اسى خيال ميں رہتے ہيں كہ تعيش اور زرق وبرق سے بھرپور زندگى اور معاشرتى تہذيب كى ديگر سہوليات ہميشہ سے موجود تھيں اور موجود رہيں گى _

تجملات، آسائشے اور خواہشات نفسانى كو پور اكرنا گويا انكے لئے ايك عام سى بات ہوجاتى ہے وہ اس دور ميں گذشتہ لوگوں كى محصولات اور ايجادات پر مكمل طور پر اكتفاء كيئے ہوئے ہوتے ہيں ايسے مصائب اور اسباب جو ممكن ہے كہ انكى كاميابيوں ميں خلل ڈال ديں ، ان كے مقابلے ميں كمزور پڑجا تے ہيں پانچوےں مرحلہ ميں حكومت زوال كى كى راہوں پر قدم ركھتى ہے اس دور ميں فضول خرچى اور اسراف كا آخرى مرحلہ شروع ہوتا ہے_ تن آساني، تجملات، جسمانى ضعف اور اخلاقى تباہى كا حملہ يا اندرونى اضمحلال يا دونوں اسباب كى بناء پر يہ حكومت تباہ ہوجاتى ہے _ (1)

 

سلسلہ بنى اميہ كا آغاز اورعيش و عشرت كى ابتدائ

اكثر اسلامى فتوحات بنى اميہ كے دور ميں مكمل ہوئيں يہ چيز ايك طرح سے حقيقى اسلام كى صورت بگاڑنے ميںاہم كردار ركھتى ہے كيونكہ اسلام ايسے خاندان اور ان كے وابستہ لوگوں كے ذريعہ ترويج ہورہا تھا كہ جو خود اسلام كے زيادہ معتقد نہ تھے_ بنى اميہ نے دين ميں مختلف بدعتيں ايجاد كيں اور ان بدعات كو دين كے نام سے پھيلايا _ انہوں نے اسلام كے زريں قانون مساوات كو پائوں تلے روندڈالا اور عرب كى عجم پر برترى كے نظريہ كا پروپيگنڈا كيا _

---------------------------

1) عبدالرحمان ابن خلدون ، مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ محمد پروين گنابادى تہران_

اموى حكمرانوں نے اسلامى حكومت كى بہت سى درآمدات كو اپنى عيش وعشرت اور خوبصورت محلات بنانے پر صرف كيا اسى بناء پر عوامى طبقات ميں ناراضگى كى لہر دوڑى اور يہ چيز اموى حكمرانوں كے سلسلہ كو ختم كرنے كا باعث بني_ انكے بعد بنى عباس نے بھى اسى طرز عمل كو جارى ركھا اور انہيں بھى بنى اميہ كى مانند انجام كا سامنا كرنا پڑا_

 

خلفاء اورا مراء كى بے پناہ ثروت اور اسكے نتائج

خليفہ اسلامى ممالك كى حكومت ميں مكمل اختيارات كا مالك تھا_ تمام درآمدات سب سے پہلے اس كے ہاتھوں ميں پہنچتى تھيں _ لہذا قدرتى طور پر وہ تمام لوگوں سے زيادہ مال و دولت كا مالك تھا_ خلفاء كے بعد علاقوں كے والى اور امراء بھى بے پناہ دولت كے مالك تھے_ كيونكہ وہ ماليات اور ٹيكس جمع كرتے تھے جتنا چاہتے تھے لوگوں سے چھين ليتے تھے _

يہ ايك طبعى بات ہے كہ انسان جسقدر زيادہ ثروت و دولت كا مالك ہو تو اس كى زندگى كا معيار اتنا ہى وسيع اور بلند ہوتا ہے وہ خوراك، لباس اور نمود و نمايش ميں بہت زيادہ افراط كرتا ہے_ تعيش كى طرف رجحان نے عرب بدووں كو صحرا نشينى والى خصلتوں سے دور كركے يوں شہرى زندگى كى آسائشےوں كا عادى كرديا كہ وہ تعيش اور تفنن ميں روم اور ايران كے بادشاہوں سے بھى سبقت لے گئے _ سب سے پہلے حضرت عمر نے معاويہ كے فاخرہ لباس پر اعتراض كيا اور كہا اے معاويہ تم نے ايران كے بادشاہ كسرى كى مانند لباس پہنا ہے؟(1)_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next