خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواھشات کے پر ترجیح دینا



دوسرے مقام پر ارشاد ھوتا ھے :

<اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقیٰکُمْ>[23]

”بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیزگار ھے “

اسلام ،قائدا Ùˆ رھبرمسلمین Ú©Û’ لئے تقویٰ اور عدالت Ú©Ùˆ ضروری قرار دیتا Ú¾Û’ اسی طرح قاضی،پیش نماز اورامین (جس Ú©Û’ پاس لوگ امانتیں رکھواتے ھیں) بہ الفاظ دیگر ان تمام افراد Ú©Û’ لئے تقوی Ùˆ عدالت Ú©Ùˆ لازمی شرط قرار دیتا Ú¾Û’ جو سماج اور معاشرہ میں کسی بھی عنوان سے مقام ومنزلت Ú©Û’ مالک ھوں۔اسی لئے جب نظام اقدار میں تبدیلی آئے Ú¯ÛŒ توخود بخودمعاشرہ Ú©ÛŒ    سماجی،سیاسی،معاشی،علمی،دینی حیثیتوں میں تبدیلی ناگزیر Ú¾Û’ Û”

اس طرح تین مرحلوں میں یہ عمل انجام پاتا ھے :

۱۔نظام اقدار میں تبدیلی

۲۔اقدار میں تبدیلی

۳۔سماجی اور سیاسی حیثیت میں تبدیلی

اب جبکہ استغنا سے متعلق اسلامی نظریہ واضح ھو گیا اور لوگوں کی زندگی میں اس کے کردار کی اھمیت کا بھی اندازہ ھوگیا تو اب ھم نفس کے استغنا اور بے نیازی کے بارے میں کچھ بیان کرسکتے ھیں جس کے بارے میں حدیث شریف کے الفاظ یہ ھیں ”جعلت غناہ فی نفسہ “

نفس کی بے نیازی

سوال یہ کہ نفس کی بے نیازی ھے کیا ؟اور ھم اپنے اندر یہ بے نیازی کیسے پیدا کرسکتے ھیں؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next